پاکستان سے بیرون ملک روزگار کے لیے جانے والوں کے لیے ڈیجیٹل ادائیگیوں کا نظام نافذ
جمعہ 12 دسمبر 2025 14:49
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
پاکستانی حکومت نے بیرون ملک روزگار کے لیے جانے والے شہریوں کو غیرقانونی کٹوتیوں، بھاری فیسوں اور نقد ادائیگی کے ذریعے ہونے والے استحصال سے بچانے کے لیے ایک بڑے ریگولیٹری فیصلے کا اعلان کیا ہے۔
بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے جمعرات کو باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ اب تمام اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز اور امیدواروں کے درمیان کسی بھی قسم کی فیس، چارجز یا مالی لین دین ’صرف بینکاری ذرائع یا منظور شدہ ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹمز کے ذریعے‘ ہی کیا جا سکے گا، جبکہ نقد ادائیگی مکمل طور پر ممنوع قرار دی گئی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام شفافیت بڑھانے، مالی بدعنوانی روکنے اور امیدواروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہو چکا تھا۔
یہ فیصلہ اُس وقت سامنے آیا ہے جب گذشتہ چند برسوں میں او ای پیز کی طرف سے زائد فیسوں کی وصولی، رسید نہ دینے، اوورچارجنگ اور غیرقانونی نقد ادائیگیوں کی شکایات میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اردو نیوز کو دستیاب سرکاری ریکارڈ کے مطابق صرف حالیہ عرصے میں 826 او ای پیز کے لائسنس منسوخ کیے گئے، 99 لائسنس معطل ہوئے اور 15 کروڑ روپے سے زائد کی رقوم قوانین کی خلاف ورزی پر ریاست کے حق میں ضبط کی گئیں۔ اسی دوران زائد فیسوں اور بدعنوانی کے مختلف الزامات پر 850 کیسز ایف آئی اے کو بھیجے گئے تاکہ ان کی آزادانہ تفتیش کی جا سکے۔
حکام کے مطابق ان کارروائیوں نے واضح کر دیا کہ نظام میں وسیع پیمانے پر بہتری کی ضرورت ہے۔
اسی تناظر میں جاری ہونے والے تازہ نوٹیفکیشن میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانی کی اس سفارش کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں واضح کہا گیا تھا کہ ’اوورسیز جاب امیدواروں اور او ای پیز کے درمیان ہر قسم کی فیس اور ادائیگی صرف باضابطہ بینکنگ چینلز کے ذریعے ہونی چاہیے۔‘
حکومت نے قائمہ کمیٹی کی اس ہدایت پر عمل درآمد کرتے ہوئے پورے امیگریشن نظام میں ادائیگیوں کے طریقہ کار کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ اب اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کسی بھی مرحلے پر کسی امیدوار سے نقد وصولی نہیں کر سکیں گے، اور خلاف ورزی کی صورت میں لائسنس کی منسوخی سمیت کارروائی کی جا سکے گی۔
امیگریشن رولز 1979 کے تحت او ای پیز پہلے ہی صرف ’اصل اور ضروری اخراجات‘ جیسے ٹکٹ، میڈیکل، ویزا، ورک پرمٹ، لیوی وغیرہ وصول کرنے کے مجاز ہیں، جبکہ سروس فیس کی زیادہ سے زیادہ حد 15 ہزار روپے مقرر ہے۔ اگر کوئی امیدوار اپنی کوشش سے روزگار حاصل کرے اور صرف پروٹیکٹریٹ کارروائی کے لیے او ای پی سے رابطہ کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ چھ ہزار روپے وصول کر سکتا ہے۔
قواعد میں یہ بھی واضح ہے کہ ‘جتنے پیسے لیے گئے ہوں وہ تمام رقم رسید کے ساتھ درج ہونا ضروری ہے، جس پر او ای پی کے دستخط، دفتر کی مہر اور مناسب ریونیو سٹیمپ موجود ہو۔‘ لیکن شکایات کے مطابق کئی پروموٹرز ان ضابطوں کی پاسداری نہیں کر رہے تھے جس سے امیدوار قانونی شکایت بھی مشکل سے درج کرا پاتے تھے۔
بیورو کا کہنا ہے کہ نقد لین دین پر پابندی اور بینکنگ/ڈیجیٹل چینلز کے لازمی استعمال سے نہ صرف مالی ریکارڈ مکمل دستیاب ہوگا بلکہ فیلڈ انسپیکشن، آڈٹ، پروٹیکٹر کلیئرنس اور شکایات کے ازالے کے عمل میں بھی شفافیت بڑھے گی۔ پروٹیکٹر آف امیگرنٹس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہر مرحلے یعنی رجسٹریشن سے لے کر بریفنگ اور کلیئرنس تک اس پالیسی پر سختی سے عمل کرائیں اور کسی بھی بے ضابطگی کی فوراً رپورٹ ہیڈکوارٹر بھیجیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ شفافیت بڑھانے کے لیے شکایات منیجمنٹ سسٹم، پری ڈپارچر بریفنگ، حقوق و فرائض کے بارے میں آگاہی، اور جعلی ایجنٹس سے بچاؤ کی تربیت بھی نظام میں شامل کی گئی ہے۔
وزارت کے مطابق ایف آئی اے کے ساتھ مل کر غیرقانونی بھرتی نیٹ ورکس اور سب ایجنٹس کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں تاکہ امیدواروں کے مالی و قانونی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
