ایئر انڈیا کے طیارے کا حادثہ جو 6 ماہ بعد بھی ’معمہ‘ بنا ہوا ہے
ایئر انڈیا کا بوئنگ 8-787 ڈریم لائنر طیارہ کس وجہ سے تباہ ہوا جس کے نتیجے میں 260 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حادثے کے چھ ماہ بعد بھی تفتیش کار اِس کا کوئی واضح جواب دینے میں ناکام ہیں۔
اس حادثے کی حقیقی وجوہات کے تاحال سامنے نہ آنے کی وجہ سے پائلٹوں، ایئرلائن اور طیارہ ساز کمپنی کے مابین تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے تحت انڈیا کے ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بیورو (اے اے آئی بی) نے 12 جون کے حادثے کے ایک ماہ بعد ابتدائی رپورٹ شائع کی تھی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس رپورٹ نے کچھ تکنیکی معلومات فراہم کی ہیں، لیکن حادثے کی تحقیقات تاحال جاری ہیں۔
واضح رہے کہ ایئر انڈیا کے بوئنگ 8-787 ڈریم لائنر کی پرواز 171 نے 12 جون 2025 کو دوپہر 1 بج کر 38 منٹ پر احمدآباد ایئرپورٹ سے اُڑان بھری تھی۔
لندن کے گیٹوک ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہونے والے اس طیارے میں ایک منٹ کے اندر آگ لگ گئی اور پھر یہ گر کر تباہ ہو گیا۔
اس حادثے میں جہاز میں سوار 242 میں سے 241 افراد جبکہ اس کے زمین پر ٹکرانے کی وجہ سے 19 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حادثے میں صرف ایک شخص زندہ بچا تھا جو شدید زخمی حالت میں تھا۔
ڈادثے کے بعد ایئر انڈیا نے بتایا تھا کہ فلائٹ میں 200 انڈین مسافر، 52 برطانوی، سات پرتگالی اور ایک کینیڈین مسافر کے علاوہ عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔
’اس پرواز کی قیادت کیپٹن سومیت سبھروال کر رہے تھے، جو ایک انتہائی تجربہ کار پائلٹ اور ٹرینر تھے جن کا 10 ہزار گھنٹے سے زیادہ طیارہ اُڑانے کا تجربہ تھا۔‘
ایئر انڈیا کا کہنا تھا کہ ’حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ پرواز سے قبل ’اچھی حالت‘ میں تھا اور اس میں کوئی خرابی نہیں تھی اور ڈریم لائنر کے حادثے کے بعد سے ابتدائی جانچ میں ’حفاظتی خدشات کا انکشاف نہیں ہوا۔‘
ابتدائی تحقیقات
12 جولائی کو اے اے آئی بی کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق دونوں انجنوں کے لیے فیول سپلائی سوئچز قریباً بیک وقت اُڑان کے فوری بعد ’آف‘ پوزیشن میں رکھے گئے تھے۔
’کاک پٹ کی ریکارڈنگ کے مطابق ایک پائلٹ دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ اس نے (ایندھن کی سپلائی) کیوں منقطع کی جبکہ دوسرے پائلٹ نے جواب دیا کہ اُس نے ایسا نہیں کیا۔‘
اس کے بعد ہوائی جہاز بلندی سے نیچے آنے لگا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک معاون پاور یونٹ جس کا مقصد انجن خراب ہونے کی صورت میں بجلی فراہم کرنا تھا، خود بخود متحرک ہو جاتا ہے۔
اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’10 سیکنڈ سے بھی کم وقت بعد دونوں سوئچ ’آن‘ پوزیشن پر واپس آگئے۔
اس کے فوری بعد دونوں پائلٹوں میں سے ایک جہاز گرنے سے قبل ’مے ڈے، مے ڈے، مے ڈے‘ کا پیغام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
15 صفحات پر مشتمل دستاویز میں اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ آیا ایندھن کے سوئچ کو پائلٹ نے جان بوجھ کر بند کیا تھا یا اِس میں کسی قسم کی کوئی خرابی تھی۔
تنازع پیدا ہو گیا
جیسے ہی یہ رپورٹ شائع ہوئی، اس پر شدید تنقید ہوئی۔
پائلٹ ایسوسی ایشنز کا موقف ہے کہ جہاز کے پائلٹ اور اس کے معاون پائلٹ کے درمیان ہونے والی بات چیت ثبوت فراہم کیے بغیر انسانی غلطی کے امکان کی نشان دہی کرتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی نشان دہی کی ’اے اے آئی بی‘ نے اس مرحلے پر مؤثر طریقے سے تکنیکی خرابی، یا دیکھ بھال یا سروسنگ کی خرابی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے طیارے یا اس کے انجنوں پر کسی قسم کے کنٹرول اقدامات کی سفارش نہیں کی۔
ایک طرف مقتولین کے اہل خانہ، وکلا اور پائلٹ جبکہ دوسری جانب ایئرلائن اور صنعت کار کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی۔
ایک پائلٹ کے والد یہ کیس لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔پائلٹ سومیت سبھروال کے والد 91 سال کے پشکاراج سبھروال کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں ’بڑی خامیاں’ تھیں۔
اپنی درخواست میں انہوں نے موقف اپنایا کہ ’یہ رپورٹ بنیادی طور پر مرنے والے پائلٹوں پر ذمہ داری عائد کرتی ہے جو اب اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہیں، جبکہ حادثے کی دیگر ممکنہ قابل فہم تکنیکی اور طریقہ کار سے متعلق وجوہات کا جائزہ لینے یا انہیں ختم کرنے میں ناکام نظرآتی ہے۔‘
مفروضے
متاثرین کے قریباً 50 خاندانوں کی نمائندگی کرنے والی برطانوی وکیل سارہ سٹیورٹ بھی ایسے منظرنامے کی حمایت کرتی ہیں جس میں شک کا محور پائلٹ نہ ہوں۔
ان کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ درست معلومات سے ایک پریشان کن صورت حال سامنے آتی ہے کہ شاید یہ حادثہ ایندھن کی سپلائی منقطع ہونے کی وجہ سے ہوا ہو، جس سے بوئنگ کے سسٹم میں ممکنہ ناکامی کی عندیہ ملتا ہے۔
ایئر انڈیا کے سی ای او کیمبل ولسن نے 10 ستمبر کو ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’ابتدائی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ طیارے میں کچھ بھی خراب نہیں تھا، انجنوں میں کوئی بھی مسئلہ نہیں تھا، ایئرلائن کے آپریشن میں بھی کچھ غلط نہیں تھا۔‘
تاہم بعض ماہرین اُن کے اس بیان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
سیفٹی میٹرز فاؤنڈیشن کے بانی اور سابق کمرشل پائلٹ امیت سنگھ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’تباہ ہونے والے طیارے میں حادثے سے قبل بجلی کی خرابی کی اطلاع ملی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’رپورٹ کچھ اِس طرح مرتب کی گئی ہے کہ اسے پڑھنے والا اس بات پر یقین کرتا ہے کہ حادثے کے ذمہ دار پائلٹ ہی ہیں ’حالانکہ‘ پیش کردہ بہت سے اعدادوشمار کا سورس نہیں بتایا گیا۔
انہوں نے اس حوالے سے خبردار بھی کیا کہ حتمی رپورٹ میں ’گڑبڑ کی جا سکتی ہے۔‘
ایوی ایشن کے ماہر مارک مارٹن نے اور بھی آگے بڑھتے ہوئے اسے ’ہوشیاری سے ڈیزائن کیا گیا کور اپ‘ قرار دیا ہے۔
’بوئنگ نے میکس 737 کے تباہ ہونے کے بعد بھی بالکل ایسا ہی کیا اور پائلٹوں کو موردِالزام ٹھہرایا۔‘ انہوں نے 2018 اور 2019 میں ہونے والے حادثات کے بارے میں بتایا کہ ’حادثات کے بعد میں ہونے والی تحقیقات میں طیاروں کے ڈیزائن میں خامی پائی گئی تھی۔‘
مارک مارٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’بوئنگ کمپنی اس حادثے کی ذمہ داری قبول کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘
اے ایف پی کی جانب سے امریکی طیارہ ساز کمپنی سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا، تاہم ‘بوئنگ‘ نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
