Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ جانے والے پاکستانی ڈاکٹروں کو انگریزی زبان کا ٹیسٹ پاس کرنا ہوگا

زوبیہ رعنا ایم بی بی ایس فائنل کی طالبہ ہیں اور ڈاکٹر بننے کے بعد وہ چاہتی ہیں کہ اچھے روزگار اور بہتر مستقبل کی خاطر پاکستان سے برطانیہ منتقل ہو جائیں۔
ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ پاکستان میں حاصل کی گئی تعلیم اور اختیار کیے گئے پیشے کو برطانیہ میں جاری رکھ سکیں۔ 
گزشتہ چند برس انہوں نے اس ذہنی کشمکش میں گزارے ہیں کہ انہیں وہاں جا کر اپنا پیشہ ترک کرنے کا خدشہ مول لینا چاہیے یا پاکستان میں ہی رہ کر اپنا کیریئر بنانا چاہیے۔ تاہم اب ان کی یہ الجھن سلجھ گئی ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اب برطانیہ میں پاکستانی ڈاکٹرز کے لیے کافی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔
’مجھے لگتا تھا کہ پاکستان میں حاصل کی گئی میڈیکل کی ڈگری کو شاید برطانیہ میں اہمیت نہ دی جائے لیکن جب اپنی خواہش وہاں رہنے والی ایک دوست کے سامنے رکھی تو انہوں نے بتایا کہ یہاں ہر ہسپتال میں نہ صرف پاکستانی ڈاکٹرز موجود ہیں بلکہ ان کی خدمات کو سراہا بھی جاتا ہے۔‘
برطانیہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹرز کی تنظیم پیما کے مطابق برطانیہ میں کل 32 میڈیکل کالجز ہیں جبکہ کورونا کے بعد نیشنل ہیلتھ سروسز کو نہ صرف ڈاکٹرز بلکہ پیرا میڈیکل سٹاف کی بھی اشد ضرورت ہے۔
جو ڈاکٹرز بھی مطلوبہ ٹیسٹ پاس کر رہا ہے، اس بحران کی وجہ سے اسے فوری طور پر ملازمت مل رہی ہے۔
برطانیہ اس حوالے سے دنیا بھر سے قابل ڈاکٹرز کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔

کورونا کے بعد نیشنل ہیلتھ سروسز کو نہ صرف ڈاکٹرز بلکہ پیرا میڈیکل سٹاف کی بھی اشد ضرورت ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پاکستان میں اس وقت 20 ہزار ڈاکٹرز سالانہ پاس آؤٹ ہوتے ہیں جبکہ برطانیہ کو اس وقت سالانہ 15 ہزار ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی ڈاکٹرز کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستانی ڈگریوں کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان سے تقریباً ساڑھے چار ہزار ڈاکٹرز ہر سال برطانیہ جا رہے ہیں۔

پاکستانی ڈاکٹرز برطانیہ کیسے جا سکتے ہیں؟

برطانیہ میں میڈیکل کے شعبہ میں ملازمت کے لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹرز جنرل میڈیکل کونسل میں رجسٹرڈ ہوں۔ اس حوالے سے لائسنس کے حصول کا ایک طریقہ کار ہے۔ 
کنسلٹنسی فراہم کرنے والی پاکستانی فرم ’پیلب ڈاٹ پی کے‘ کے چیف ایگزیکٹو شیخ وسیم احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں میڈیکل کے شعبے میں کسی بھی ڈگری کے حامل ڈاکٹرز برطانیہ میں ملازمت حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس سے پہلے انہیں کچھ ٹیسٹ پاس کرنا ہوتے ہیں۔ 
’یہ ٹیسٹ زبان اور پیشہ وارانہ مہارت سے تعلق رکھتے ہیں۔ انگریزی زبان کے لیے آئیلٹس یا پھر او ای ٹی جو کہ میڈیکل شعبے کی اصطلاحات پر مبنی لینگوئج ٹیسٹ ہے، وہ پاس کرنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹرز کے لیے آئیلٹس کے سات بینڈز درکار ہوتے ہیں جبکہ او ای ٹی میں گریڈ بی درکار ہوتا ہے۔ پیرا میڈیکل سٹاف کے لیے آئیلٹس میں چھ بینڈز درکار ہیں۔‘ 

کون سے میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہیں؟

اگر ڈاکٹرز زبان پر عبور رکھتے ہیں اور متعلقہ بینڈز حاصل کر لیتے ہیں تو اس کے بعد انھیں ایک ٹیسٹ جسے ’پلیب ون‘ کہا جاتا ہے اسے پاس کرنا ہوتا ہے۔
یہ ٹیسٹ برطانیہ جنرل میڈیکل کونسل لیتی ہے اور سال میں چار مرتبہ اس ٹیسٹ کا انعقاد ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس کے دو مراکز بنتے ہیں جن میں ایک کراچی اور دوسرا لاہور میں ہوتا ہے۔
’پلیب ون‘ میں 180 ملٹی پل چوائس سوالات کے جوابات دینا ہوتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت 20 ہزار ڈاکٹرز سالانہ پاس آوٹ ہوتے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

’پلیب ون‘ ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد ڈاکٹرز اس ٹیسٹ کی بنیاد پر برطانیہ جا سکتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر ’پلیب ٹو‘ کی تیاری کرنے کے بعد ٹیسٹ دینا ہوتا ہے۔ یہ ٹیسٹ برطانیہ سے باہر نہیں لیا جاتا۔
یہ طویل ٹیسٹ ہوتا ہے جس میں میڈیکل شعبے کے حوالے سے سوالات کے جوابات کے ساتھ ساتھ مختلف حوالوں سے مہارت کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ڈاکٹر کے پاس فرضی مریض بھیج کر یا میڈیکل ایمرجنسی پیدا کر کے اس کی طبی مہارت کو جانچا جاتا ہے۔
یہ ٹیسٹ سال میں صرف ایک بار ہوتا ہے۔ 
’پلیب ٹو‘ بھی پاس کرنے کے بعد ڈاکٹر کو کسی منظور شدہ کلینک پر ہاؤس جاب کی طرز پر کچھ عرصہ گزارنا ہوتا ہے۔ 
برطانیہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر مدثر محمود کے مطابق ’یہ وہ وقت ہوتا ہے جب برطانوی کلینکس اور سینیئر ڈاکٹرز نئے آنے والے ڈاکٹرز کا استحصال کر سکتے ہیں یا کرتے ہیں۔ کیونکہ ڈاکٹر کو اس کلینک سے سرٹیفکیٹ درکار ہوتا ہے ورنہ اس کی ساری محنت اور پیسہ ضائع ہو سکتا ہے۔ جب تک اس کو سرٹیفکیٹ نہیں ملتا، وہ لائسنس کے لیے درخواست نہیں دے سکتا۔ اس لیے کلینک کا انتخاب کرتے وقت ڈاکٹرز کو کنسلٹنٹ یا اپنے کسی سینیئر سے مشورہ ضرور کر لینا چاہیے۔‘
ہاؤس جاب مکمل ہونے کے بعد ملنے والے سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر برطانوی جنرل میڈیکل کونسل سے برطانیہ میں پریکٹس کا لائسنس حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اگر آپ یہ لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر ملازمت حاصل کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہ جاتا۔   

کتنا وقت اور پیسہ درکار ہے؟  

شیخ وسیم احمد کے مطابق میڈیکل گریجوایٹ ہونے کے بعد ٹیسٹوں کی تیاری کی فیس کے علاوہ لینگوئج ٹیسٹ، پلیب ٹیسٹ، ویزہ فیس، ٹکٹ اور ملازمت کے حصول تک رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات خود برداشت کرنا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کی آمدن شروع ہوتی ہے۔ 

انگریزی زبان کے لیے آئیلٹس یا پھر او ای ٹی ٹیسٹ ہے پاس کرنا ہوتا ہے۔ (فوٹو: آئیلٹس ایشیا)

’اس سارے عمل پر 15 سے 16 ہزار پاؤنڈ خرچ آتا ہے جو پاکستانی روپے میں کم و بیش 40 لاکھ روپے بنتا ہے۔ اگر آپ ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد آپ 50 پاونڈ فی گھنٹہ کے حساب سے آغاز کرتے ہیں جو تجربے کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ اس حساب سے اگر کوئی ڈاکٹر آٹھ گھنٹے کام کرے تو وہ چار سو پاونڈ یعنی کم و بیش ایک لاکھ روپیہ روزانہ کما سکتا ہے۔‘
صرف یہی نہیں بلکہ ملازمت مل جانے کے بعد شادی شدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیوی اور 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو برطانیہ بلایا جا سکتا ہے۔ 
شیخ وسیم احمد کا کہنا تھا کہ برطانیہ جانے کے ارادے سے لے کر وہاں پہنچنے کے لیے 10 ماہ سے ایک سال کا وقت درکار ہوتا ہے۔
اس میں کم یا زیادہ وقت کا انحصار ’پلیب ون ٹیسٹ‘ پر ہے کہ وہ لینگوئج ٹیسٹ پاس کرنے کے کتنے عرصے بعد ہوتا ہے۔ 
عموماً لینگوئج ٹیسٹ کی تیاری کے لیے ایک سے دو ماہ، ’پلیب ون‘ کی تیاری کے لیے تین سے چار ماہ، ’پلیب ٹو‘ اور سفری تیاری کے لیے دو ماہ جبکہ ’پلیب ٹو‘ کے بعد ہاؤس جاب تک ایک سے دو ماہ درکار ہوتے ہیں۔

شیئر: