Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کے میڈیکل کالجز میں بچوں کے لیے کم کوٹہ، اوورسیز پاکستانیوں کا شدید ردعمل

یہ صورتحال وفاقی اعلان اور صوبائی عملدرآمد کے درمیان واضح فرق کو ظاہر کرتی ہے (فوٹو: پی ایم آفس)
وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے رواں برس اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے میڈیکل کالجز میں 15 فیصد کوٹہ دینے کے اعلان کے باوجود پنجاب حکومت کی نئی داخلہ پالیسی میں یہ کوٹہ بدستور کم سطح پر برقرار رکھا گیا ہے جس پر اوورسیز پاکستانی برادری میں شدید تحفظات پائے جا رہے ہیں۔
اپریل 2025 میں اوورسیز پاکستانی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ ملک بھر کے میڈیکل کالجز میں اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے 15 فیصد نشستیں مخصوص کی جائیں گی تاکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی تعلیمی ضروریات کو مدنظر رکھا جا سکے اور ان کے بچوں کو بھی برابری کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے مواقع حاصل ہوں۔ اس اعلان کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ ہزاروں اوورسیز طلبہ کو میڈیکل تعلیم کے دروازے کھل سکیں گے۔
تاہم پنجاب میں 2026 کے داخلہ سیشن کے لیے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے تحت جاری کی گئی پالیسی میں اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں صرف 66 نشستیں مختص کی گئی ہیں جو مجموعی سرکاری نشستوں کا تقریباً 2 فیصد بنتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایم بی بی ایس جبکہ چند بی ڈی ایس کی نشستیں شامل ہیں۔ یہ صورتحال وفاقی اعلان اور صوبائی عملدرآمد کے درمیان واضح فرق کو ظاہر کرتی ہے۔
پنجاب میں اس وقت میڈیکل تعلیم کا ڈھانچہ سب سے بڑی سطح پر موجود ہے۔ صوبے میں سرکاری اور نجی شعبے کو ملا کر درجنوں میڈیکل کالجز کام کر رہے ہیں جن میں سرکاری اداروں کی تعداد نسبتاً کم جبکہ نجی کالجز کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر پنجاب میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی نشستیں دس ہزار سے زائد ہیں جن میں سے تقریباً ایک تہائی سرکاری اور باقی نجی شعبے میں ہیں۔
سرکاری میڈیکل کالجز میں سالانہ فیس نسبتاً کم اور عام طلبہ کی پہنچ میں ہوتی ہے جبکہ نجی میڈیکل کالجز میں سالانہ فیس بیس سے چالیس لاکھ روپے تک جا چکی ہے جس کے باعث اوورسیز پاکستانی طلبہ کی بڑی تعداد سرکاری اداروں میں داخلے کی خواہش رکھتی ہے۔ نجی کالجز میں پہلے سے ہی فارن اور اوورسیز طلبہ کے لیے علیحدہ کوٹہ موجود ہے مگر بھاری فیس کے باعث اکثر نشستیں بھر نہیں پاتیں۔
داخلے کا مکمل نظام پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ضوابط کے تحت یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز چلاتی ہے۔ بیشتر نشستیں اوپن میرٹ پر دی جاتی ہیں جبکہ باقی مخصوص کوٹوں کے تحت تقسیم ہوتی ہیں جن میں معذور افراد، کم ترقی یافتہ علاقے، افغان طلبہ اور اوورسیز پاکستانی شامل ہیں۔

صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ سرکاری میڈیکل کالجز میں نشستوں کی تعداد پہلے ہی محدود ہے (فوٹو: اے پی پی)

اوورسیز پاکستانی کوٹہ کے تحت درخواست دینے کے لیے ضروری ہے کہ والدین میں سے کم از کم ایک کے پاس پاکستانی شناخت اور بیرونِ ملک مستقل رہائش کا ثبوت موجود ہو۔ امیدوار کے لیے ہائر سیکنڈری یا اس کے مساوی تعلیم میں کم از کم نمبر حاصل کرنا اور ایم ڈی کیٹ میں کامیابی لازم ہوتی ہے۔ میرٹ کا حساب تعلیمی نتائج اور داخلہ ٹیسٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور اوورسیز امیدواروں کی الگ فہرست جاری کی جاتی ہے۔
اوورسیز پاکستانی تنظیموں اور مختلف حلقوں کی جانب سے پنجاب حکومت کے حالیہ فیصلے پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ اگر وفاقی سطح پر 15 فیصد کوٹہ دینے کا اعلان ہو چکا ہے تو اس پر تمام صوبوں میں یکساں طور پر عمل ہونا چاہیے۔ اوورسیز پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی معیشت میں اربوں ڈالر کی ترسیلات کے ذریعے مستقل کردار ادا کرتے ہیں، اس کے باوجود ان کے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں تک مناسب رسائی نہیں مل رہی۔
دوسری جانب صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ سرکاری میڈیکل کالجز میں نشستوں کی تعداد پہلے ہی محدود ہے اور مقامی طلبہ کی ایک بڑی تعداد ہر سال مقابلے میں شامل ہوتی ہے اس لیے فوری طور پر 15 فیصد کوٹہ نافذ کرنا مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر وفاق کے ساتھ مزید مشاورت جاری ہے۔

شیئر: