Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مولوی مشتاق قابل جج تھے مگر اُن پر بھٹو دشمنی غالب آ گئی: عامر خاکوانی کا کالم

جنرل ضیا الحق کی موت سنہ 1988 میں طیارے کے حادثے میں ہوئی تھی۔ فائل فوٹو: گیٹی امیجز
یہ خاصا عرصہ پہلے کی بات ہے، جس شخصیت کی بات ہو رہی ہے وہ اب مٹی کی چادر اوڑھے ابدی نیند سو رہے ہیں، مگر ان کی سحرانگیز شخصیت اور اس ملاقات میں کہی گئی باتوں کا فسوں آج تک قائم ہے۔
میں نے اپنے سنڈے میگزین کے لیے تفصیلی انٹرویو کرنا تھا۔ بڑے جتن سے ملاقات کا وقت ملا۔ لاہور کی مشہور کینال روڈ پر واقع اس سوسائٹی میں پہنچا تو بارش ہو رہی تھی۔ ڈرائنگ روم میں میزبان منتظر تھے۔ جیبی ٹیپ ریکارڈر اور اپنی نوٹ بک سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر دلچسپی سے ان کا جائزہ لیا۔ سفید کُرتا شلوار میں ملبوس دھان پان شخصیت متین چہرہ، چمکتی ہوئی تیز موٹی آنکھیں، دبلے پتلے جسم کی نسبت زیادہ بلند، کڑک دار آواز۔
یہ جسٹس کے ایم صمدانی تھے، لاہور ہائی کورٹ کے دلیر، جرات مند ریٹائر جج۔ جسٹس (ر) کے ایم صمدانی کا تعلق عدلیہ کے چند انتہائی نیک نام اور بااصول ججوں میں کیا جاتا رہا۔ وہ ان چند ججوں میں سے تھے جنہوں نے جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سے پہلے جنرل ضیا کے مارشل لا کے دو ہی مہینوں بعد جسٹس صمدانی نے بھٹو صاحب کی ضمانت لے کر قومی منظر نامے میں ایک کھلبلی مچا دی تھی۔
جسٹس کے ایم صمدانی سے گفتگو ایک منفرد تجربہ تھا۔ ایک بے ریا،کھرا، بے لاگ انسان جس نے تمام عمر اصولوں کی پاسداری کو اپنا ایمان بنائے رکھا۔ کئی امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی، جسٹس صمدانی کھل کر بولے۔ منکسر المزاج آدمی تھے، ان کی جرات کے قصے پرانے وکلا اور ان کے ساتھی جج سنایا کرتے تھے۔ صمدانی صاحب البتہ ان باتوں کو سادگی سے بغیر کسی تفاخر کے بیان کر دیتے۔ ان کے نزدیک مارشل لا دور میں بھٹو صاحب کی ضمانت لینے یا پی سی او کے تحت حلف نہ لینا عام بات تھی۔ کہا جاتا تھا کہ صمدانی صاحب اگر عدلیہ میں رہتے تو قوی امکان تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن کر ریٹائر ہوتے، مگر انہوں نے اس بات کی ذرا بھی پروا نہ کی۔ صمدانی صاحب سے یہ بات کی تو مسکرا کر بولے،’ یہ کیا خاص بات ہے، جج کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ انصاف و اصولوں کی پاس داری کرنا کوئی عزیمت کا راستہ نہیں بلکہ ایک جج کے لیے معمول کی بات ہوتی ہے۔‘
جسٹس کے ایم صمدانی سے ملاقات کی چند یادداشتیں اپنے قارئین سے شیئر کرتا ہوں جو تاریخ کا حصہ ہیں اور ان سے گمشدہ کڑیاں جڑ جاتی ہیں۔ پڑھیے صمدانی صاحب کی کہانی، ان کی اپنی زبانی۔

بھٹو صاحب کی ضمانت لینا

’فوجی حکومت نے بھٹو صاحب کو قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا (بعد میں اسی کیس میں انہیں پھانسی بھی ہوئی)۔ اس کی ضمانت کی درخواست دائر ہوئی۔ میں اس روز قائم مقام چیف جسٹس ہائی کورٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ میں یہ کیس کسی اور کو بھی دے سکتا تھا، مگر میں نے سوچا کہ اپنی بلا کسی اور کے سر کیوں ڈالی جائے۔ خیر میں نے سماعت شروع کی، دو تین روز کارروائی ہوتی رہی، پھر میں نے میرٹ پر ان کی ضمانت لے لی۔ مجھ سے کئی بار پوچھا گیا کہ اس دوران حکومتی دباؤ آیا۔ میرا یہی جواب ہوتا ہے، ایسا بالکل نہیں ہوا۔ کسی نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ ہاں جب کارروائی ہو رہی تھی تو چیف جسٹس ہائی کورٹ مولوی مشتاق میرے گھر آئے ہوئے تھے۔ باتوں میں انہوں نے ایک بار کہا کہ میں بھٹو کو کچھ زیادہ سہولت دے رہا ہوں۔ (میں نے سماعت کے دوران بھٹو صاحب کی درخواست پر انہیں کاغذ قلم فراہم کرنے کا حکم دیا تھا)۔ میں نے مولوی مشتاق صاحب سے کہا کہ ’دیکھیں یہ میرا عدالتی معاملہ ہے اور میں بہتر جانتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے، بطور چیف جسٹس میں آپ کا ماتحت نہیں ہوں۔‘ یہ سن کر مولوی مشتاق صاحب خاموش ہو گئے اور جاتے وقت معذرت کرکے کہنے لگے کہ ’میں نے تو ویسے ہی بات کی تھی۔

جسٹس کے ایم صمدانی نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ فائل فوٹو

بھٹو کیس، مولوی مشتاق اور چیف جسٹس انوارالحق

ایک ہوتی ہے ذاتی رائے۔ میری ذاتی رائے ان تین ججوں کے ساتھ ہے جنہوں نے بھٹو صاحب کو بری کیا۔ میں اس کیس کے اکثریتی فیصلے کو فیصلے کو غلط سمجھتا ہوں۔ میں ان ججوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا جنہوں نے انہیں سزائے موت سنائی۔ ممکن ہے وہ واقعتاً اس نتیجے پر پہنچے ہوں۔ ہاں میری رائے ان کے خلاف ہے۔ جہاں تک جسٹس انوار الحق صاحب کا تعلق ہے میرے خیال میں وہ بھی مارشل لا کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق کے بھٹو کیس میں طرزعمل پر تنقید ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ مولوی مشتاق صاحب مارشل لا کے ساتھ ملے ہوئے تھے، درحقیقت وہ ان کے آلہ کار کا کردار ادا کر رہے تھے۔ حالانکہ وہ بڑے قابل جج تھے مگر بدقسمتی سے بھٹو دشمنی ان پر غالب آ گئی تھی۔

وفاقی کابینہ میں جنرل ضیا کے ساتھ جھڑپ

بھٹو صاحب کی ضمانت لینے کے کچھ عرصے بعد مجھے فیڈرل لا سیکریٹری بنا دیا گیا۔ سیکریٹری شپ کا دور خاصا ہنگامہ خیز رہا۔ انہی دنوں پہلی بار الیکشن ملتوی کیے گئے تو اس کے بعد کابینہ کی فل میٹنگ بلوائی گئی، تمام وزرا اور فیڈرل سیکریٹریز موجود تھے۔ جنرل صاحب سیکریٹری صاحبان پر شدید خفا تھے۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ متوقع انتخابات کے پیش نظر تقریباً تمام سیکریٹری صاحبان ہر اہم معاملے میں ازخود رائے دینے کے بجائے کہہ دیتے تھے کہ اس بارے میں آنے والی حکومت کو فیصلہ کرنا چاہیے۔ اس پر جنرل صاحب بڑے ناراض تھے، انہوں نے برملا کہا کہ کیا سیکرٹیریوں کو بھی یہ یقین تھا کہ انتخابات ہونے والے ہیں؟ اب یہ بڑی غیر منطقی بات تھی، ظاہر ہے جب حکومت نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا تو سب یہی سمجھے تھے کہ انتخابات ہونے والے ہیں، ہمیں کوئی الہام تو نہیں ہو گیا تھا کہ جنرل ضیا کا ارادہ انتخاب کرانے کا ہے ہی نہیں۔
میٹنگ شروع ہوتے ہی جنرل ضیا برس پڑے۔ بہت سے غیر پارلیمانی الفاظ کہے۔ یہ سن کر کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ میں چند لمحے تو انتظار کرتا رہا کہ کوئی سینیئر سیکریٹری اس کا جواب دے گا کیونکہ میں تو خیر ایک جج کی حیثیت سے وہاں گیا تھا، میں بیوروکریٹ یا فیڈرل سیکریٹری نہیں تھا۔ جب کسی نے جواب نہ دیا تو میں نے کہا ’جہاں تک کردار کا تعلق ہے، میرا بھی جی چاہتا ہے کہ بعض جرنیلوں کو الٹا لٹکا دیا جائے کیونکہ ان کا کردار اچھا نہیں۔‘ جس طرح جنرل ضیا نے کسی کا نام نہیں لیا، میں نے بھی کسی کا نام نہیں لیا۔‘

جنرل ضیا نے جسٹس صمدانی کو وفاقی سیکریٹری قانون لگا دیا تھا۔ فائل فوٹو: گیٹی امیجز

یہ سن کر ایک بار پھر کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ بہرحال جنرل ضیا نے کو ئی تبصرہ نہیں کیا۔ وہ سوچ سمجھ کر بد لہ لینے والے آدمیوں میں سے تھے۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ میں آپ سے اس موضوع پر بعد میں علیحدہ بات کروں گا۔ کابینہ کی کارروائی ہوتی رہی، سیکریٹری بو لتے رہے اور پھر چائے کا وقفہ ہو گیا۔ چائے کے موقع پر بعض سینیئر سیکریٹریوں نے جو میرے ہمدرد تھے، مجھے کہا کہ جب جنرل صاحب سے اکیلے میں ملاقات ہو تو معافی مانگ لوں۔ میں نے کہا کہ کس بات کی معافی؟ مجھ سے یہ نہیں ہوگا۔
بہرحال جب ہم اکیلے میں ملے، تو جنرل ضیا کہنے لگے کہ بتائیں یہ معاملہ کس طرح حل ہو گا۔ میں نے جواب دیا، ’بہت آسان ہے۔ تمام سیکریٹری اور وزرا صاحبان موجود ہیں۔ آپ دوبارہ میٹنگ بلائیے، اس میں پہلے آپ اپنے الفاظ واپس لیں اور معذرت کریں، پھر میں بھی بھی معافی ما نگ لیتا ہوں۔‘ جنرل ضیا کہنے لگے، ’یہ تو نہیں ہو سکتا۔‘ میں نے کہا پھر میں بھی معذرت نہیں کر سکتا۔ یوں بات ختم ہو گئی، معافی انہوں نے مانگی نہ میں نے مانگی۔
اس واقعے کے بعد میں تین ماہ تک لا سیکریٹری رہا۔ جنرل ضیا دل میں کینہ رکھنے والے انسان تھے، تاہم وہ یہ کینہ ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ بڑی عزت سے ملتے رہے، یہ اور بات ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر انکوائری کرا رہے تھے تاکہ میری کوئی کمزوری مل جائے۔ مگر انہیں نہیں ملی۔ میں اس ضمن میں چیف جسٹس انوارالحق کی تعریف کرنا چاہوں گا حالانکہ انہوں نے بھی کئی غلطیاں کی ہیں۔ سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ وہ مارشل لا کے حامی تھے۔ بہرحال ان سے جنرل ضیا نے کہا کہ وہ میرا کیس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجنا چاہتے ہیں۔ اس پر انوارالحق نے ان سے کہا کہ آپ نہیں بھیج سکے۔ صرف مخصوص قانونی وجوہ کی بنا پر ایسا ہو سکتا ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ یوں جنرل ضیا اس اقدام سے باز رہے۔

ججوں کو مافوق البشر ہونا چاہیے

میری رائے میں جج بننا ایک سپیشل کام ہے، اس کے لیے انسان نہیں مافوق البشر (سپر ہیومین) ہونا چاہیے۔ اگر آپ ایسے نہیں تو جج بننے سے انکار کر دیں۔ بہت سے لوگ جج بننے سے انکار بھی تو کر دیتے ہیں۔ کئی لوگ ایسا نہیں کرتے، بطور جج مراعات تو تمام لے رہے ہوتے ہیں لیکن جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انسان ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر عدالت کا منصب ملا ہوا ہے تو آپ کو ہر قیمت پر انصاف ہی کرنا ہوگا۔  

ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پھانسی دی گئی تھی۔ فائل فوٹو: گیٹی امیجز

جب دستور میں ججوں کو تحفظ ملا ہوا تو انہیں بے لاگ انصاف کرنا چاہیے بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر آئینی تحفظ نہ ہو،جیسے ماضی میں حکومت نے کئی ججوں کو برطرف بھی کیا ہے، خود مجھے برطرف کیا ہے۔ تو اگر تحفظ نہ بھی ہو تب بھی جب تک کوئی جج عدالت کے منصب پر بیٹھا ہے اسے ہر قیمت پر انصاف کرنا چاہیے، خواہ اس کے سر پر تلوار موجود ہو۔ جج کا کام انصاف کرنا ہو خواہ کچھ بھی ہو مگر ہم تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈر جاتے ہیں۔ مثلاً اس بات پر ڈر جاتے ہیں کہ ہمیں لاہور سے ملتان بھیج دیا جائے گا یا عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ بھائی اگر عہدہ ختم ہو جائے تو کیا ہوگا؟ رزق کوئی حکومت تھوڑی دیتی ہے، رازق تو خدا ہی ہے۔ یا تو ایسے لوگ واضح اعلان کریں کہ ہمارا ان داتا خدا نہیں بلکہ حکومت میں براجمان افراد ہیں۔ بھائی اگر برطرف بھی کر دیا جائے تو بھی بھوکے تو نہیں مریں گے۔ اورکچھ نہیں تو کوئی پان بیڑی کی دکان ہی کھول لو۔ ہمارے کئی جج یہ کہہ کر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ ’ہم بھی انسان ہیں۔‘ میں ایسے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ انسان ہیں تو یہاں آتے کیوں ہیں، پان بیڑی کی دکان کیوں نہیں کھول لیتے؟
میرا تجربہ ہے کہ ہوتا کچھ نہیں، انسان بسا اوقات خود ہی ڈرتا رہتا ہے۔ ایک دفعہ میں بطور سیشن جج ایبٹ آباد میں تعینات تھا۔ ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک عورت آئی اورمجھے ایک لفافہ دے کر کہنے لگی کہ یہ صدر ایوب کی والدہ نے بھیجا ہے۔ میں نے وہ رقعہ لیا، اسے سب کے سامنے چاک کر کے پیچھے لگے آتش دان میں پھینک دیا۔ سب لوگ خاموش ہو گئے کہ پتہ نہیں اب اس کا کیا بنے گا، مگر اللہ کے کرم سے مجھے کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اگر آپ بے خوف رہیں تو اللہ بھی کرم نوازی کرتا ہے۔

پولیس کو مجسٹریٹ کے ماتحت ہونا چاہیے

میں 1958ء میں بطور مجسٹریٹ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں فرائض انجام دے رہا تھا۔ ان دنوں فیصل آباد لائل پور کہلاتا تھا۔ میں جب ٹوبہ ٹیک سنگھ مجسٹریٹ بن کر گیا تو ایک دن کے بعد مقامی پولیس افسران مجھ سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ جناب ہم آپ کے ساتھ پورا تعاون کریں گے۔ میں نے یہ سن کر کہا، مجھے آپ سے تعاون نہیں تکمیل حکم چاہیے۔ قانون وضوابط کی رو سے پولیس مجسٹریٹ کے ماتحت ہوتی ہے اور ماتحت سے تعاون نہیں مانگا جاتا بلکہ حکم دیا جاتا ہے۔ میری بات سن کر وہ ششدر رہ گئے، تاہم میں جب تک وہاں رہا کبھی پولیس نے میری حکم عدولی نہیں کی۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بسا اوقات دستور اور قانون میں آپ کو اختیارات ملے ہوتے ہیں، مگر آپ خود ہی اپنے اختیارات استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ ویسے میری قطعی رائے ہے کہ کسی بھی مسلح فورس کو غیر مسلح سویلین کے ماتحت ہونا چاہیے۔

پی سی او کے تحت حلف نہ لینا

میں لا سیکریٹری کا کام کرنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ واپس آ گیا، مگر چند ماہ بعد ہی ایک دن خبر آئی کہ حکومت ایک نیا حلف لینا چاہ رہی ہے۔ تب یہ معلوم نہیں تھا کہ حلف کے الفاظ کیا ہیں۔ میری یہ رائے تھی کہ حلف کا متن جانے بغیر حلف اٹھانے سے انکار کرنا مناسب نہیں، ہو سکتا ہے کہ حلف میں کوئی قابل اعتراض بات نہ ہو۔ اگر ہوئی بھی اور وقت کے دباؤ کے تحت قابل اعتراض حلف اٹھانا بھی پڑے تو فوراً بعد استعفیٰ بھی دیا جا سکتا ہے۔ (واضح رہے کہ جج کا استعفیٰ فوراً ہی موثر ہو جاتا ہے اس کے قبول نہ کیے جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا) چنانچہ میں ان ججوں میں شامل ہو گیا جو گورنر ہاؤس گئے تھے۔ وہاں مجھے اس وقت کے چیف جسٹس صاحب کا پیغام ملا کہ آپ حلف لینے کے لیے نہ آئیے۔ میں گھر چلا گیا اور جاتے ہی سرکاری گاڑی ہائیکورٹ کو واپس بھجوا دی۔

لاہور ہائیکورٹ کی عمارت کی فائل فوٹو

اگلے روز چیف جسٹس ہائی کورٹ شمیم قادری صاحب کا فون آیا کہ وہ گاڑی لے کر میرے پاس آ رہے ہیں۔ میں نے وجہ پوچھی۔ فرمانے لگے کہ مجھے حلف نہ دینا ایک غلط فہمی کی بنا پر تھا۔ قادری صاحب مجھے ترغیب دے رہے تھے کہ میں دوسرے تیسرے دن ان ججوں کے ساتھ حلف اٹھا لوں جنہیں لاہور سے باہر ہونے کی وجہ سے حلف نہیں دیا جا سکا تھا۔ میں نے چیف جسٹس سے صاف کہہ دیا کہ اب تو میں حلف کا متن پڑھ چکا ہوں جس کا لب لباب یہ ہے کہ وفاداری دستور سے نہیں بلکہ فوجی حکومت سے ہوگی۔ اس لیے میں ایسا حلف اٹھانے سے قاصر ہوں۔
جب میں عدالت عالیہ سے فارغ ہوا تو جو خلوص و محبت پنجاب کے بالخصوص لاہور کے وکلا نے دکھایا جس کی مثال ملنی کم ہے۔ کسی نے مکان کی پیشکش کی، کسی نے دفتر کی، کسی نے نقد رقم کی اور کسی پیشکش میں بھی خلوص کی کمی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ اس کے علاوہ جو حوصلہ افزائی کی گئی اور وکالت میں آنے کی دعوت دی گئی وہ اس پر مستزاد۔ اس خلوص و محبت نے مجھ پر بہت اثر کیا۔ بس یوں سمجھیے کہ ’اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا‘ والا ماجرا ہوا۔‘

 

شیئر: