Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی آئی اے کی نجکاری سے ’کیریئر کا سٹیٹس اور نام تبدیل نہیں ہوگا‘

وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی کا کہنا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے بعد بھی اس کا نام تبدیل نہیں ہوگا اور نیشنل کیریئر کا سٹیٹس بھی برقرار رہے گا۔
انہوں نے اردو نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی آج منگل کو ہوگی اور کامیاب کمپنی یا کنسورشیم کو مقررہ شرائط کے تحت ایئر لائن سونپ دی جائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ بولی میں سرمایہ کار اپنی مالیاتی آفرز جمع کروائیں گے اور اسی دن سہ پہر ساڑھے تین بجے بولیاں کھولی جائیں گی، جبکہ یہ عمل براہِ راست ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نشر کیا جائے گا۔
مشیر نجکاری محمد علی نے بتایا کہ ’صبح پونے گیارہ سے ساڑھے گیارہ کے درمیان تمام بِڈرز اپنی سیل شدہ بولیاں ہمارے حوالے کریں گے، جنہیں ہم ایک شفاف باکس میں رکھیں گے۔ اس کے بعد ہم پرائیویٹائزیشن کمیشن اور کابینہ کمیٹی کے پاس جائیں گے تاکہ اپنی ریفرنس پرائس کی منظوری حاصل کریں اور ریفرنس پرائس سے کم بولیاں قبول نہیں کی جائیں گی۔‘
محمد علی نے بولی کے پروسیس سے متعلق مزید بتایا کہ بعد ازاں ساڑھے تین بجے تک بولیاں کھولی جائیں گی۔ اگر ایک سے زیادہ بولیاں ریفرنس پرائس سے اوپر ہوئیں تو اوپن آکشن ہوگا، اور جس گروپ کی بولی سب سے زیادہ ہوگی، اسے پی آئی اے سونپ دی جائے گی۔ تاہم اگر صرف ایک بولی ریفرنس پرائس سے اوپر ہوئی تو اسی کو قومی ایئر لائن فروخت کی جائے گی۔
محمد علی کے مطابق اس مرحلے میں پی آئی اے کے 75 فیصد حصص کی نجکاری کی جائے گی اور بولی جیتنے والے کو باقی 25 فیصد حصص 90 دن کے اندر خریدنے کا اختیار بھی دیا جائے گا۔
پی آئی اے کی بحالی کے حوالے سے مشیر نجکاری نے مزید بتایا کہ چونکہ پی آئی اے کی بہتری، جہازوں کی اپ گریڈ اور دیگر اخراجات کے لیے کافی رقم درکار ہے، اس لیے بولی میں حاصل ہونے والی رقم کا 92.5 فیصد دوبارہ پی آئی اے میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیا جائے گا اور صرف 7.5 فیصد قومی خزانے میں جمع ہوگا۔
بولی میں شامل کنسورشیمز اور کمپنیوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مشیر نجکاری نے بتایا کہ بنیادی طور پر تین بِڈرز نے کوالیفائی کیا ہے جس میں دو کنسورشیم اور کمپنی شامل ہے۔

پی آئی  کے اثاثے ہولڈنگ کمپنی میں منتقل کیے گئے ہیں تاکہ ملازمین کی تنخواہیں اور فوائد محفوظ رہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پہلا کنسورشیم لکی سیمنٹ گروپ لیڈ کر رہا ہے جس میں حب پاور ہولڈنگ، کوہاٹ سیمنٹ اور میٹرو وینچرز شامل ہیں، جبکہ دوسرے کنسورشیم میں عارف حبیب گروپ، فاطمہ فریٹیلائزر کمپنی، سٹی سکولز اور لیک سٹی ہولڈنگ شامل ہیں اور تیسری ایئر بلیو (پرائیویٹ) لمیٹڈ ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری کہتے ہیں کہ نجکاری کے بعد بھی تمام ملازمین کم از کم ایک سال تک اپنی ملازمت برقرار رکھ سکیں گے اور نئے حصص دار کو اس عرصے میں کسی بھی ملازم کو برطرف کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔
اس وقت پی آئی کے اثاثے ہولڈنگ کمپنی میں منتقل کیے گئے ہیں تاکہ ملازمین کی تنخواہیں اور فوائد محفوظ رہیں۔ حکومت کا ماننا ہے کہ نئے سرمایہ کار صرف کمپنی کی کارکردگی اور ترقی کے لیے سرمایہ کاری کریں گے، ملازمین کے حقوق پر اثر نہیں پڑے گا۔
واضح رہے کہ پی آئی اے کے مالی اور انتظامی مسائل کی وجہ سے حکومت نے پہلے بھی متعدد بار نجکاری کی کوششیں کیں۔ پہلی سنجیدہ کوشش اکتوبر 2024 میں ناکام ہوئی کیونکہ موصولہ بولی حکومت کی متوقع قیمت سے بہت کم تھی۔ دوسری کوشش 2025 میں پری کوالیفکیشن مراحل سے گزری لیکن مکمل بولی کی تیاری میں وقت لگا۔ اب حکومت کی تیسری اور موجودہ کوشش آخری مرحلے میں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس بار پی آئی اے کی نجکاری میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ نہ صرف قومی ایئر لائن کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ دیگر اداروں کی نجکاری کے حوالے سے بھی مثبت اشارہ ثابت ہوگا۔

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق حکومت کی پوری کوشش ہے کہ پی آئی اے کو پرائیویٹائز کیا جائے (فوٹو:اے ایف پی)

پاکستان کے سینیئر معیشت دان ڈاکٹر اکرام الحق نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اگر پی آئی اے کی نجکاری کامیابی سے مکمل ہوئی اور اس کا تجربہ مثبت ثابت ہوا تو دیگر اداروں کی طرح پی آئی اے بھی اپنی اصل شکل میں بحال ہو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ پی آئی اے کو پرائیویٹائز کیا جائے لیکن اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت کو اس میں کتنی کامیابی ملتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی اہم ہے کہ پی آئی اے لینے والی کمپنی کا ایوی ایشن کے شعبے میں کتنا تجربہ ہے اور وہ اسے کس طرح آگے لے کر جائے گی۔
ڈاکٹر اکرام الحق نے آخر میں بتایا کہ اگر یہ عمل کامیابی سے مکمل ہوا تو نہ صرف پی آئی اے کو فائدہ ہوگا بلکہ حکومت کے دیگر ادارے جو نجکاری کے عمل میں ہیں، ان کے لیے بھی یہ ایک مثبت اشارہ اور مثال ثابت ہوگی۔

 

شیئر: