Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی جے پی پھر ہندو کارڈ کھیلنے کی گھات میں

*** ظفر قطب۔ لکھنؤ ***
یہ بات تقریباً طے ہے کہ2019ء کا پارلیمانی الیکشن بی جے پی ہندو کارڈ کھیل کر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی ہے ۔ ملک کی آزادی کے بعد سے ہی ہندو مہاسبھا جیسی چھوٹی موٹی پارٹیاں اس موضوع کو اٹھا کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی تھیں لیکن اس وقت ملک میں سیکولرازم کا تانابانا اتنا مضبوط تھا کہ ان کی ایک بھی نہیں چلی ۔ اس سے انکار نہیں کہ کانگریس میں بھی ایک ایسا گروپ موجود تھا جو ہندو نوازی میں نمایاں ہوچکا تھا اور وہ وقتاً فوقتاً پنڈت جواہر لال نہرو اور دوسرے سیکولر لیڈروں کو چیلنج کررہا تھا لیکن ان کی تعداد بہت کم تھی ۔ 
جب اس ملک میں بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد پڑی جو بعد میں بی جے پی کے نام سے ابھر کر ملکی سیاست میں سامنے آئی۔ اس کے بعد ہندو مہاسبھا ،آر ایس ایس ، شیو سینااور وشو ہندو پریشد جیسی بہت سی ہندونواز جماعتیں سرگرم ہوگئیں جن کا مقصد اس ملک کو ہندو نیشن بنانا تھا۔ ہندوستانی سیاست میں جو پارٹی سب سے زیادہ ہندو نواز بن کر ابھری وہ بی جے پی تھی اور اس کا فائدہ اسے پہلے ریاستی پیمانے پر ہوا لیکن دھیرے دھیرے اس کے نمائندے پارلیمنٹ میں بڑھنے لگے اور 2014 آتے آتے پارلیمنٹ میں اسے 282 سیٹیں حاصل ہوگئیں۔ بی جے پی کی اس کامیابی کو دیکھ کر انڈین نیشنل کانگریس جو ہر طرف ہارنے لگی تھی اور نوبت یہاں تک آگئی کہ اسے وینٹی لیٹر پر جانا پڑا اس سے گھبرا کر کانگریس نے بھی ہندو کارڈ کھیلنا شروع کردیا ہے۔ آج نوبت یہ آگئی ہے کہ راہل گاندھی پنڈت راہل گاندھی بن گئے اور کمیونسٹ پارٹیاں خاموش ہوکر بیٹھ گئیں۔
 ملک کے اکثریتی ووٹوں کو رجھانے کے لیے ترنمول کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس جیسی پارٹیاں بھی ہندوؤں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے لانے کے لیے کوششیں کرنے لگیں۔ اگر راہل گاندھی مندر جاکر پوجا پاٹھ کرنے لگے اور زنار پہن کر برہمن بن گئے تو شرد پوار مراٹھا ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کے لیے ہندو نواز تنظیموں کی خوشامد میں لگ گئے یہاں تک کہ وہ نریندر مودی اور امت شاہ کی تعریف میں رطب اللسان ہوگئے۔
 در اصل بی جے پی نے شروع سے ہی ہندوستان میں یہ نظریہ اکثریتی فرقہ کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی کہ ہند میںہی ہندوؤں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ1984میں جس پارٹی کے صرف دو ممبران، پارلیمنٹ میں پہنچے تھے آج 282 سیٹوں پر اس کا قبضہ ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی جنوبی ہند کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ریاستوں پر تقریباً اس کا قبضہ ہوچکا ہے۔ بی جے پی نے2014کے الیکشن میں پہلی بار ہندوؤں کو ذات برادری کی سیاست سے الگ کرکے مذہب کے نام پر انہیں متحد کرنے کی کوشش کی۔ اس میں آر ایس ایس اور وشوہندو پریشد جیسی جماعتوںنے بہت خاموشی کے ساتھ کام کیا اور اتنا بڑا رول ادا کیا کہ بی جے پی کو نہ صرف پسماندہ اقوام بلکہ دلتوں کے ووٹ بھی اچھے خاصے ملے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے ووٹوں کا تناسب بڑھ کر 47فیصد ہوگیا جبکہ2009 میں اس کے ووٹوں کا تناسب صرف 29فیصد تھا۔
 2017ء میں جب اترپردیش اسمبلی کا الیکشن ہوا تو اس میں بی جے پی نے جم کر ہندو کارڈ کھیلا۔ حزب اختلاف نے  حکمراں جماعت بی جے پی کی چالوں کو ذرا دیر میں سمجھا لیکن تب تک آر ایس ایس ہندو ووٹوں کو متحد کرچکا تھا۔ جہاں تک سوال مسلم ووٹوں کا ہے تو وہ اپوزیشن میں اس قدر منقسم ہوئے کہ کسی کا بھی بھلا نہیں ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 403 سیٹ والی یوپی اسمبلی میں بی جے پی کو تاریخ میںپہلی بار312 سیٹیں مل گئیں ۔ بی جے پی میں اس وقت بھی اپنے انتخابی منشور میں اجودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس نے گائے کے تحفظ پر بہت زور دیا، اور اس مسئلے کو بڑے زور وشور سے اٹھایا بھی۔ اپوزیشن کو بی جے پی نے مسلم نواز پارٹی قرار دے کر بہت جھوٹے پروپیگنڈے کیے جس کی کاٹ اپوزیشن نہیں کرسکی یا اس نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔ بی جے پی نے اس کے علاوہ تبدیلی مذہب ، لو جہاد، اور شمشان بنام قبرستان جیسے معاملے اٹھا کر خوب فائدہ اٹھایا۔ اب اس وقت بھی بی جے پی اسی تاک میں بیٹھی ہے کہ وہ ہندو کارڈ کھیل کر دوبارہ اقتدار حاصل کرلے۔ اسی غرض سے اس نے پھر ایک بار اجودھیا میں رام مند رکا مسئلہ چھیڑ دیا ہے۔ اس نے اس سلسلے میں پہلے ایک بڑا جلسہ دہلی میں کرایا جس میں ملک کے کئی حصوں سے سادھوؤں کو مدعو کرکے ملکی عوام کے ذہن میں یہ بٹھانے کی کوشش کی کہ آئین اور عدلیہ بے معنی ہیں۔ یہ ملک سادھوؤں اور باباؤں کاہے ۔ جو وہ چاہیں گے وہی ہوگا۔ اسی لیے سادھوؤں نے دو قدم آگے بڑھ کر دہلی کے جلسے میںہی سپریم کورٹ پر نکتہ چینی کردی اور یہ الزام لگا دیا کہ سپریم کورٹ رام مند ر مقدمہ کا فیصلہ ہندوؤں کے خلاف کرنے جارہا ہے۔
 اس کے بعد وشوہندو پریشد اور آر ایس ایس کا دوسرا بڑا جلسہ جو اجودھیا میں ہوا اس میں تو ہندو لیڈروں نے کھل کر یہ کہہ دیا کہ سپریم کورٹ ہمارے خلاف ہے اور شیو سینا جیسی تنظیم نے اگرچہ آر ایس ایس اور بی جے پی سے دوری بنائے ہوئے تھی لیکن اس کے لیڈروں نے بھی تقریباً یہی بات کہی ۔ اس طرح سبھی ہندو نواز پارٹیوں نے سپریم کورٹ اور اس کے ججوں پر اعلانیہ طورپر بے اعتباری کا اظہا رکرکے توہین عدالت کا ارتکاب کیا لیکن اس جرم کے خلاف حکمراں جماعت کیا بولتی ، حکومت ہند کے سربراہ صدر جمہوریہ رام کووند ، وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ نے بھی خاموشی اختیار کرلی۔ وجہ یہ تھی کہ یہ سب ان کے سیاسی گیم پلان کا ایک حصہ ہے ۔
 

شیئر: