Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اداکارہ روحی جن سے بیٹے کی جدائی نے روح چھین لی

شہزاد اعظم

    1970ءکی دہائی تھی، لاہور ٹیلی وژن اسٹیشن سے ایک دوست کی دعوت آئی تھی۔ ہم نے اس ”عالمِ رنگ و بو“ سے آنے والا بلاوا قبول کیا، ہمارے بڑے بھائی نے فرمایا کہ تم نے جو کچھ کیا فضول کیا۔ہم نے انکے مشورے کو بالکل بھی گھاس نہ ڈالی، بھلا اس نوخیز عمری میں کوئی ”سنجیدہ“ بات کیوں سوچے، چانچہ ہم نے سائیکل پکڑی اورٹی وی اسٹیشن جا پہنچے۔
    ٹی وی اسٹیشن میں گیٹ پرڈیوٹی پر مامور شخصیت نے ہم سے پوچھا کہ کون ہیںجناب، کس ڈرامے میں کام کے لئے بلایا گیا ہے ، کوئی پاس، کوئی پرچی؟ ہم نے اپنے دوست کا نام لیا۔ اس شخصیت نے فون کیا تو نجانے ہمارے دوست نے کیا جواب دیا بہر حال اس ہستی نے ہمیں ایک صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کر دیا۔ہم ویسے تو بیٹھنے کی نیت سے براجمان ہوئے تھے مگر درحقیقت ہم صوفے میں دھنس گئے۔ ہمیں ابھی ”دھنسے“ ہوئے بمشکل چند منٹ ہی گزرے ہوںگے کہ ایک نسوانی آواز ہماری سماعت سے متصادم ہوئی ، اس تصادم کے باعث کوئی دھماکہ تو نہیں ہوا البتہ ہمارے احساسات کی دنیا میں جلترنگ بجنے لگے مگر اگلے ہی لمحے دنیائے احساسات میں خاموشی چھا گئی کیونکہ وہ زنانہ آوازہم سے مخاطب تھی۔ ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک سرو قامت ، ہمارے لئے باعث ندامت،کھلے ہوئے دراز بال ، پیکر جمال، جیسے پریوں کی رانی ، انتہائی خندہ پیشانی سے استفسار کر رہی تھی کہ ”ذرا سنئے!آپ نے رفیق وڑائچ،یاور حیات یا شہنشاہ نواب میں سے کسی کو یہاں دیکھا ہے؟ ہم نے کہا کہ یہ لوگ کون ہیں؟انہوں نے کہا ”اوہ ! آئی ایم سوری۔“یقین جانئے اس روز ہم اپنی کم علمی پر خون کے آنسو روئے ۔ ہمیں خیال آیا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر ”زبانِ حُسن“ سے ادا کئے جانے والے کسی بھی نام سے واقف ہوتے تو انہیں جواب دینے کے قابل ہوتے اور یوں کچھ دیر ان سے ربط ضبط تو رہتا۔ہم اپنی کم علمی کے” غم“ میں مستغرق تھے کہ ہمارے دوست آ پہنچے انہوں نے مصافحانہ انداز میں ہمارا ہاتھ پکڑ کرہمیں گہری سوچ کے ساتھ ساتھ صوفے سے بھی باہر نکالا اور کہنے لگے کہ جلدی آئیں، اسٹوڈیو میں اندر ہی چلے آئیں، ریہرسل ہو رہی ہے ۔ہم ڈرتے ڈرتے اپنے دوست کی پرچھائیں بن کر اسٹوڈیو میں داخل ہوئے اور وہاں جاتے ہی ششدر رہ گئے کیونکہ وہی جمال کا پیکرڈرامے کی مشق کر رہی تھیں۔ وہاں موجود ایک ذمہ دار نے کہا کہ رونے دھونے کا منظر ہے، آنکھوں میں گلیسرین ڈال لیجئے مگر انہوں نے کہا کہ گلیسرین رہنے ویں، مجھے میری لائنز بتا دیں۔ انہیں اسکرپٹ دکھایاگیا۔ چند منٹ کے بعد ریہرسل شروع ہوئی ۔ انہوں نے ڈائیلاگ ادا کئے کہ ”تمہیں خبر ہے، زہرانسان کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے مگر تنہائی ایسا زہر ہے جو جینے کی خواہش چھین لیتا ہے اور مرنے نہیں دیتا، میں اس کے بغیر زندگی یوں گزاررہی ہوں کہ ہر روز مر مر کر جیتی ہوں اور جی جی کر مرتی ہوں۔مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو، چلے جاﺅ یہاں سے چلے جاﺅ۔“
    یہ کہہ کروہ خاموش ہو گئیں مگر ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ انہیں کرسی پیش کی گئی، پانی پلایا گیا۔ ان کی یہ باتیں سن کر ہمیں غصہ آیا کہ وہ آخر کون ہے جس نے ان کی زندگی اجیرن کر دی ہے، دوست نے کہا ”برادر! خواہ مخواہ غصہ کیوں کر رہے ہیںیہ سب ڈرامہ ہے،اداکاری ہے ، حقیقت نہیں؟“ہم نے کہا کہ اگر یہ اداکاری ہے، توبلا شبہ تصنع سے عاری ہے۔ ہم نے دوست سے دریافت کیا کہ یہ شخصیت کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ان کا نام روحی بانو ہے، یہ نفسیات میں ماسٹرز کر رہی ہیں مگر اداکاری میں تو یوںلگتاہے کہ پی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔
    اس اعلیٰ تعلیمیافتہ اداکارہ روحی بانوسے ہماری پہلی ملاقات تھی پھر یوں ہوا کہ زندگی میں ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوپائی۔ یہاں تک کہ وہ 25جنوری 2019ءکو دار فانی سے کوچ کرگئیں۔
    روحی بانو 10اگست 1951ءکو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے وہیں حاصل کی بعد ازاں لاہور کے معروف ”گورنمنٹ کالج“ میں حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے علم نفسیات میں ماسٹرز کیا۔ان کی ایک بہن اور 3بھائی ہیں۔ بھائیوں کے نام ذاکر حسین، توفیق قریشی اور فضل قریشی ہیںجبکہ بہن کا نام روبینہ یاسمین ہے۔ تینوں بھائیوں نے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے موسیقی کا پیشہ ہی اپنایا۔ روحی بانو نے ٹی وی پر ایک کوئز شو میں شرکت کی جس کے بعد فاروق ضمیر نے انہیں اداکاری کی پیشکش کی ۔یوں انہوں نے فن کی دنیا میں قدم رکھ دیا جہاں انہوں نے اسٹیج اور ٹیلی وژن پر اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اپنی صلاحیتوں کے بل پر متعدد ایوارڈز بھی حاصل کئے۔
    روحی بانو کی ازدواجی زندگی کامیاب نہیں رہی۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد ہی شوہر سے ان کی علیحدگی ہو گئی۔انہوں نے دوسری شاری بھی کی مگر وہ بھی ناکام رہی۔ ایک انٹرویو میںجب ان سے دریافت کیاگیا کہ انہیں کبھی کسی سے محبت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ مردسے یا تو میں نے فرار اختیار کی اور کبھی وہ مجھ سے دور ہو گیا۔
    اداکارہ کا ایک بیٹا علی عابد تھاجسے نوجوانی کی عمر میں 7نومبر2005ءکو قتل کر دیا گیا۔ اس کی جدائی نے روحی سے اس کی روح چھین لی۔وہ کئی روز اسپتال میں زیر علاج رہیں۔ نفسیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی شخصیت خود نفسیاتی مریضہ بن گئیں پھر یوں ہوا کہ وہ گاہے بگاہے اسپتال لے جائی جانے لگیں۔
    روحی بانو اپنے گھر میں تنہارہا کرتی تھیں۔ان کے ”ویران کاشانے“ کے درو دیوار اوروہاں پڑا سامان” چلا چلا کر خاموش داستانیں “ بیان کرتا سنائی دیتا تھا۔جا بجااستعمال شدہ غیر مستعملہ اشیاءبکھری دکھائی دیتی تھیں۔اس مسکن میں صرف 2 کا راج تھا ، ایک روحی بانو اور دوسری تنہائی ۔
    ڈاکٹروں نے کافی جہد کے بعد روحی بانو کے مرض کی تشخیص کردی۔ انہوں نے قرار دیا کہ روحی کو نفسیاتی مرض ”اسکٹزوفینیا“ لاحق ہے۔ اس مرض کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ مریض ایسی چیزوں یا لوگوں کی آوازیں سنتا ہے جو موجود نہیں ہوتیں۔اسے ہیولے دکھائی دیتے ہیں۔
    ماہرین طب نجانے اس حقیقت سے آشنا ہیں یا نہیں کہ اسکٹزوفینیا ایک ایسا عارضہ ہے جو اس ماں کو لاحق ہوتا ہے جسے ممتا سے محروم کر دیا گیا ہو۔لاہور میں تو روحی بانوکو اس مرض میں مبتلا قرار دیا گیا تھا تاہم کوئی ادارہ ذرا کراچی میں اسکٹزوفینیا کی مریض خواتین کی تعداد جاننے کے لئے سروے کروائے توحیران کن نتائج برآمد ہو ںگے کیونکہ عروس البلادمیں تو ایسی گودیں کئی ہزارہیں جن کو سفاک قاتلوں نے اجاڑ دیا۔ اسی لئے اس شہر پرتپاک کی خاک میں ہرشب نسائی اشکوں کا ایک سمندر جذب ہوتا ہے ۔ ہم نے اسی ”اسکٹزوفینیا“ کی ماری ایک مریضہ ایسی بھی دیکھی تھی جو کراچی میں اپنے مقتول بیٹے کی قبر کے ساتھ قبر کھدوا کر اسی میں رہا کرتی تھی اور گاہے بگاہے دوسرے بچوں کو ملنے گھر بھی آجاتی تھیں۔ بچے ان سے شکوہ کرتے تو وہ کہتی تھیں کہ قبر میں وہ اکیلا ہے ، تمہارے پاس تو دوسرے بہن بھائی بھی ہیں، میں اس کی تنہائی دور کرنے چلی جاتی ہوں، کیا کروں، ماں ہوں ناں۔
    روحی بانو بھی ایسی ہستی تھیں جن سے قاتلوں نے ان کا لخت جگر چھین لیا تھا۔وہ اپنی بیٹے کی جدائی میں اپنا آپ بھلا بیٹھی تھیں۔ پیاسی ممتا کو بیٹے کی آواز سنائی دیتی تھی، وہ اس کی چیزوں سے باتیں کرلیتی تھیں۔ پڑھی لکھی دنیا کے ماہرین طب نے انہیں اسکٹزوفینیاکا شکار کہہ دیا۔اسی دوران گزشتہ برس نومبر میں روحی بانو سے متعلق خبریں آئی تھیں کہ وہ پر اسرار طور پر غائب ہوگئی ہیں۔اس پراسرار گمشدگی کی اطلاعات کے بعد ان کے بھائی نے تمام خبروں کو مسترد کیا تھا اور بتایا تھا کہ معروف اداکارہ گھر میں ہی ہیں۔ساتھ ہی روحی بانو کے بھائی نے انکشاف کیا تھا کہ اداکارہ ذہنی مرض میں مبتلا ہیں اور لاہور کے مقامی اسپتال سے ان کا علاج ہو رہا ہے۔
    روحی بانو اپنے بیٹے کی جدائی کے غم میں گھلتی رہیںیہاں تک کہ اس بے مثال، پیکر جمال، اجڑی گود ، پیاسی ممتا کے گردے ناکارہ ہو گئے۔ انہیں علاج کے لئے ترکی منتقل کیاگیا ۔وہ علاج کے دوران 10روزوینٹی لیٹر پر رہیں اور بالآخر 25جنوری کو انتقال کر گئیں۔
    روحی بانو نے جہاں شاندار اداکاری کی بدولت کئی ایوارڈ جیتے، وہیں ان کی ذاتی زندگی مسائل کا شکار رہی۔ماضی کی مقبول اداکارہ کی ازدواجی زندگی بھی ناکام رہی اور ان کے اکلوتے بیٹے کو بھی قتل کردیا گیا، جس کے بعد وہ آہستہ آہستہ بیماریوں کا شکار بنتی گئیں۔روحی بانو نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سمیت متعدد ایوارڈ حاصل کیے تھے۔روحی بانو کے انتقال پر پاکستان کی شوبز شخصیات سمیت سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
 

شیئر: