Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین پاکستان کے بارے میں کیا اچھا سوچتے ہیں؟

 سوشل  میڈیا پر  دلچسپ  جوابات عوام کی توجہ کا مرکز بن گئے جب پاکستانی اداکارہ نادیہ  جمیل نے پاکستان اور انڈیا میں رہنے والے شہریوں سے کہا کہ وہ ایک دوسرے کی کن چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں۔

نادیہ جمیل نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ”آج میں اپنے تمام  پاک بھارت دوستوں اور خاندان سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ پاکستان اورپاکستانیوں کے بارے میں   اچھی اور مثبت چیزوں کا ذکر کریں۔اورمیری تمام پاکستانی دوستوں سے بھی  گزارش ہے کہ وہ  انڈیا اور انڈین دوستوں کی کس چیز سے اور کیوں  متاثر ہیں ،اس رائے  کا اظہار کریں تا کہ ایک  مثبت مقابلہ ہو سکے۔‘

نادیہ  جمیل کی یہ ٹویٹ  منظر عام پر آتے  ہی  دونوں ممالک کے سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بڑی تعداد میں مختلف دلچسپ جوابات کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔
 
انڈین سوشل میڈیا صارف سدھا راجہ گوپلان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی بے شمار

چیزوں ہیں جو قابل تعریف ہیں۔ شاندار کرکڑز سے لے کر  ‘s  80 کے ڈراموں تک  پاکستان اپنی مثال آپ ہے۔

مسرور نے پاکستان کے لیے اپنی رائےکا اظہا ر  کرتے ہوئے کہا کی میں پاکستانی  کرکٹ ٹیم  کا فین ہوں ۔ان کے تمام میچز نہایت  خوشگوار اور طنز ومزاح سے بھرپور ہوتے ہیں۔

  خوش لیندرا سنگھ کا کہنا تھا کہ پاکستان  انڈین  ثقافت کا ایک حصہ رہا ہے ۔ مسلم ، سکھ ، ہندو، بدھ  مت  تمام مذاہب کے لو گوں کا مل جل کر رہنا ۔

پاکستان کی مہمان نوازی کا  منہ بولتا ثبوت ہے۔جہاں انڈین سوشل میڈیا صارفین نے  اپنی دلچسپ آرا کا اظہار کیا  وہیں  پاکستانی عوام کی طرف سے آنے والا  ردعمل  بھی بے حد خوشگوار تھا ۔ سعدیہ حبیب نے  اپنی ہندو دوستوں کی تصویر شئیر کرتے ہوئے کہا کہ  انڈین  دوستوں کی کی وجہ سےمجھے  بھی اکیلا محسوس نہیں ہوا۔
سارہ صدیقی نے اپنی انڈین دوست کی والدہ کی طرف سے بھیجےگئے بیسن کے لڈو کی تصویر  شئیر کرتے ہو کہا کہ  جب بھی میری انڈین دوست کی والدہ
کینیڈا آتی ہیں تو وہ کبھی بھی انڈیا کے مشہور بیسن کے لڈو بنا کر لانا نہیں بھولتی ہیں ۔
شیمس  کا  کہنا تھا کہ  میری انڈین  دوست گرمیوں میں  ممبئی سے 
مجھےکبھی ا ٓموں کا  تحفہ بھیجتی ہے تو کبھی دیوالی کے موقع پر  بیسن کے لڈو اور  کاجو برفی جو کہ ایک  بہت اچھی بات ہے ۔

پاکستانی ٹوئیٹر صارف احمد بلال کا کہنا تھا کہ 

   ایک چیز جو  بھارت کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ  انھوں نے اپنے ثقافتی ورثے کی حفاظت  بہترین طر یقے سے کی ہےجو قابل تعریف ہے ۔ میری خواہش ہے کہ میں بطور سیاح ایک مرتبہ  بھارت ضرور  جاوں۔

 ہمیں چاہیے کہ  ہم با قاعدگی سے   خوشگوار اور مثبت چیزوں کو تلاش کرنے کی  کوشش کرتے رہیں۔  منفی رویوں اور خیالات سے بچنے کے لیے

  ضروری ہے کہ ہر چھوٹی  چیز کا مثبت  پہلو اجاگر کریں۔
دونوں ممالک میسسی، رونالڈو، سچن، وسیم اکرم، علامہ اقبال، غالب، کباب، بریا نی ، کچھڑی وغیرہ سے یکساں محبت کرتے ہیں۔

 

شیئر: