Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

‘ تحفظ نہ ملا تو بیواوں اور یتیم بچوں کے ساتھ لانگ مارچ کریں‘

زین الدین احمد 
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی سبزی منڈی میں جمعہ کوہونے والے بم دھماکے میں20افراد کی ہلاکت کے بعد ہزارہ قبیلے کے افرادکا مغربی بائی پاس پردھرنا ہفتے کو دوسرے دن بھی جاری ہے۔
دھرنے میں ہزارہ قبیلے کے سیاسی و سماجی کارکنوں کے علاوہ خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل سمیت مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے بھی احتجاج میں شرکت کرکے یکجہتی کا اظہار کیا۔
دھرنے میں موجود ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم آج اپنی قوم سے اظہار یکجہتی کے لئے اس دھرنے میں بیٹھے ہیں کیونکہ گذشتہ دن جو دھما کا ہوا اس میں پھر ہماری مائیں بیوہ اور ہمارے بچے یتیم ہوئے ہیں تو ہم اس کی مزاحمت کے لئے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں۔ '
حکومت سے مذاکرات اور احتجاج ختم کرنے سے متعلق سوال پر جلیلہ حیدر کا کہنا تھا کہ 'ہم تو اس دہشت گردی سے تنگ آگئے ،ہم نے ہر جگہ اپنے مطالبات رکھے۔ ہو سکتا ہے کہ اب ہم بیواوں اور یتیم بچوں کے ہمراہ کوئٹہ سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں۔ '
احتجاج کے منتظم نادر علی ہزارہ کا کہنا تھا کہ 'ہم نے پچھلی مرتبہ بھی دھرنا دیا تھااور پھر آرمی چیف کی اس یقین دہانی پر ختم کیا کہ آئندہ ہزارہ قبیلے کے افراد کا قتل عام نہیں ہونے دیا جائے گا۔لیکن جمعہ کے واقعہ کے بعد نئے سوالات نے جنم لیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ'ہم ’تحفظ‘ جیسا بنیادی انسانی حق مانگ رہے ہیں جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔ہم روٹی، تعلیم اور نہ ہی صحت کی سہولت کا کوئی مطالبہ کر رہے ہیں۔ہمیں صرف تحفظ کا مسئلہ درپیش ہے۔'
احتجاج میں شریک ہزارہ برادری کی ایک خاتون رخسانہ نے کہا کہ 'دھرنے میں ہمارے تمام گھر والے شریک ہیں تاکہ ہم اپنا واحد مطالبہ منوا سکیں اور وہ امن اور تحفظ کی فراہمی کا ہے۔ ہمیں صرف اور صرف امن چاہیے۔'
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور وفاقی وزیر میری ٹائم ، پورٹ اینڈ شپنگ علی حیدر زیدی نے ہزارہ ٹاون جاکر دھماکے میں ہلاک ہونےوالے افراد کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہارکیا۔ 
ہلاک افراد کے لواحقین اور میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیراعلیٰ جام کمال کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی اور تحفظ کا معاملہ کسی خاص کمیونٹی کا نہیں بلکہ سب کا مسئلہ ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ ہر کمیونٹی آزادانہ طریقے سے زندگی گزارے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر امن وامان کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھارہی ہے جس میں سب سے بڑا اقدام ’سیف سٹی ‘ منصوبہ ہے جو 7 سال سے التواءکا شکار تھا۔’ مگر ہماری حکومت نے گزشتہ3 ماہ سےاس پر تیزی سے کام شروع کیا ہے۔ یہ منصوبہ جلد مکمل ہوگا۔‘ انہوں نے کہا کہ شہر میں کیمروں کا جال بچھنے کے بعد صورتحال میں بہتری آئے گی۔
جام کمال کا کہنا تھا کہ 'ہم لواحقین کے غم میں شریک ہیں۔ دھرنے میں شریک چند عناصر جذبات میں ہیں ہمارا ان سے مطالبہ ہے کہ وہ ہماری اس بات کا یقین رکھیں کہ ہم چیزوں کو بہتر کررہے ہیں۔ دھرنا دے کر سڑک کو بند کرنا مناسب عمل نہیں۔‘
جمعہ کی شام کودھرنے کے شرکا سے بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیاء لانگو کی قیادت میں حکومتی وفد نے مذاکرات کیے تھےتاہم وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد شرکا نے جمعہ کی رات بھی اسی سڑک پر خیمے لگا کر گزاری۔ 
حملے میں ہلاک ہونے والے ہزارہ قبیلے کے10 افراد کی تدفین ہزارہ ٹاون اور باقیوں کی نواں کلی ، ہزارگنجی، سریاب سمیت شہر کے مختلف علاقوں کے آبائی قبرستانوں میں کردی گئی ۔ 
زخمی ہونےوالے 48 میں سے 28 افراد کو طبی امداد دینے کے بعد گھر بھیج دیا گیا ۔ باقی 20 افراد بولان میڈیکل اسپتال ، سول اسپتال ، ایف سی اور سی ایم ایچ اسپتال میں داخل ہیں۔ زیر علاج زخمیوں میں 4 کی حالت اب بھی خطرے میں بتائی جاتی ہے۔
 

شیئر: