Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دن میں عبادت رات کو تفریح، قدیم مصریوں کا رمضان

رمضان المبارک کا اہل مصر کے شعور اور وجدان میں بڑا منفرد مقام ہے جو کہ  مشرق کے تمام ممالک سے مختلف ہے۔ اہل مصر کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو رمضان کی راتیں طرح طرح کی تفریحی تقریبات سے آباد کرتے ہیں اور  دوسری جانب دن میں اللہ تعالیٰ سے قربت کے کام بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں.
مستشرقین اور سیاح ازمنہ وسطیٰ سے مصر کی سیر کرتے رہے ہیں، ان کے مطابق ماہ رمضان میں مصری عوام کا رہن سہن  وہ نہیں رہتا جو سال کے دیگر مہینوں  میں دیکھنے میں آتا ہے۔
رمضان کے دوران اہل مصر کے طرز معاشرت میں آنے  والی تبدیلیوں پر حیرت اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سیاح اور مستشرقین بتاتے ہیں کہ  رمضان کا  چاند نظرآتے ہی  مصر میں ہر طرف خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور رمضان رخصت ہونے کے وقت اہل مصر کے چہرے اتر جاتے ہیں۔
کہہ سکتے ہیں کہ  سیاحوں اور مستشرقین نے اس حوالے سے جو کچھ قلمبند کیا ہے  وہ زندگی سے بھرپور تاریخی منظر کشی ہے اور ان کی تحریریں دستاویزات کا درجہ رکھتی ہیں۔
مصر کی سیر کرنے والے سیاح دو طرح کے رہے ہیں،  ایک  تو مسلم سیاح تھے  جنہوں نے ایک مسلمان کی نظر سے اہل مصر کی روایات اور رسم و رواج کو دیکھا اور وہ خود ان رسموں سے مانوس تھے۔ اہل مشرق کی دینی اور لسانی روایات سے آشنا تھے۔  ان میں ابن الحاج ، ابن جبیر، ناصر خسرو اور ابن بطوطہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ سیاحوں کی دوسری قسم وہ ہے جو غیر مسلم تھے، انہوں نے مصر کی سیاحت کے دوران رمضان کے رسم ورواج کی بابت جو کچھ تحریر کیا وہ غیر مسلموں کی شہادت کا درجہ رکھتا ہے۔
غیر مسلم سیاحوں نے مذہبی اور ثقافتی پس منظرسے ناواقفیت کے باعث مصر میں جو کچھ دیکھا اس پر حیرت اور تعجب کا بھی اظہار کیا۔ خوبصورت پہلو یہ ہے کہ غیر مسلم سیاحوں نے زبان کے اتار چڑھاؤ سے ناواقفیت اور اسلامی پس منظر سے لا علمی کے باوجود اپنے یورپی قارئین کو مصر میں روزوں کے مہینے کی خوبصورت تصویر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
اہل مصر کا رمضان سیاحوں کی نظر میں
سفر ناموں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مصر کی سیر اور وہاں رمضان المبارک کے شب و روز کا منظرنامہ ریکارڈ کرنے والے سب سے پہلے سیاح پوپ ویلکس فیبری ہیں۔ وہ 1483ء میں مصر گئے تھے۔  انہوں نے 'مصر کی  سیاحت' کے عنوان سے لاطینی زبان کے سفر نامے میں
مفصل تاثرات قلمبند کیے ہیں۔ فرانس کے جیک میسن نے فرانسیسی زبان میں اس کا ترجمہ کیا۔
پوپ ویلکس فیبری 13اکتوبر 1483 کو قاہرہ پہنچے اور انہوں نے وہاں دیکھا کہ قاہرہ کے  راستوں پر مختلف شکل و صورت اور رنگ برنگے فانوس   لگے ہوئے ہیں۔
پوپ فیبری نے قاہرہ میں "المسحراتی" کا بھی  تذکرہ کیا ہے۔ عربی میں المسحراتی ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو  سحری کے لیے جگاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے رمضان کی راتوں میں مسحراتی  کو دیکھا جو سحری کے لیے لوگوں کو جگاتا ، گلی گلی گھومتا ، طبلے پر تین بار ضربیں لگاتا اور ہر ایک کا نام لے کر جاگنے کے لیے پکارتا۔
رویت ہلال
انگریز مستشرق ایڈورڈ  ولیم لین نے مصر میں کئی برس قیام کیا۔ انہوں نے 'اہل مصر کے رسم و رواج' کے عنوان سے مشہور تحقیقی کتاب تصنیف کی۔ انہوں نے اس میں  1833-35 کے مصر میں رائج رسوم کا  تذکرہ کیا ۔ انہوں نے رمضان کا چاند دیکھنے کی رسم کا ذکر بڑی تفصیل سے کرتے ہوئے تحریر کیا کہ 'رویت ہلال کی یقینی  خبر ملنے پر قاضی کو اطلاع دی جاتی ہے۔ اس پر فوجی اور عوامی گروہ  دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ ایک گروہ قلعے کا رخ کرتا ہے جب کہ  دوسرا گروہ شہر کے مختلف محلّوں میں گھوم پھر کر  نعرے لگاتا ہے۔  'ا
ے اللہ کو  ماننے والو !   اللہ کے نیک بندو!  روزہ رکھو، روزہ رکھو'۔
ولیم لین مزید لکھتے ہیں کہ 'اگر چاند نظر نہ آئے تو ایسی حالت میں منادی والا صدا لگاتا کہ 'کل بھی شعبان ہے، کل روزہ نہیں، روزہ نہیں۔'"
اہل مصر کی بعض رسمیں
فرانسیسی سیاح ڈی ولیمن نے 1589 سولہویں صدی میں مصر کا سفر کیا تھا۔  انہوں نے 'سر ڈی ولیمن کے سفر نامے' کے عنوان سے اپنے سفر کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ انہوں نے رمضان میں قرآن کریم کی تلاوت کی مجالس اور مذہبی جلوسوں، مساجد کی تعمیر اور آرائش کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے اس  وقت مصر میں رائج ایک ایسے معمول کی بابت سے بھی ہمیں آگاہ کیا  جسے آج کل 'رحمان کے دسترخوان' کے نام سے جانا پہچانا جا رہا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہل مصر قدیم زمانے سے  افطار دسترخوان کی  رسم پر عمل پیرا ہیں۔ ڈی ولیمن بتاتے ہیں کہ 'اہل مصر کھلے صحن میں زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔  اپنے گھروں کے سامنے بھی یہ اہتمام کرتے ہیں۔  وہ انتہائی خوش دلی اور جوش و خروش کے ساتھ مسافروں کواپنے ساتھ کھانے میں شریک کرتے ہیں۔'
مصر میں مذہبی تقریبات
فرانس کے ایک اور سیاح گومار نے  رمضان کے دوران اہل مصر کے معمولات کا تذکرہ مختصر الفاظ میں کیا ہے۔  وہ لکھتے ہیں کہ 'قاہرہ میں مذہبی تقریبات بڑے پرآسائش انداز سے منعقد کی جاتی ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ  رمضان روزوں کا مہینہ ہے۔ روزے میں کھانا پینا، تمباکو نوشی یا سورج طلوع ہونے سے غروب تک کسی بھی طرح کی تفریح کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ سلسلہ موسم کے لحاظ سے کبھی  دراز ہو جاتا ہے اور کبھی مختصر، قاہرہ میں دس سے 14گھنٹے تک کا روزہ ہوتا ہے۔ اس کے بعداہل مصر تفریحی مشاغل اپناتے ہیں جس سے روزے کے دوران رہنے والی محرومی یاد تک نہیں آتی۔'
فرانسیسی سیاح گومار بتاتے ہیں کہ 'مسلمانوں کے  روزے اور عیسائیوں کے روزے میں ایک فرق ہے۔ مسلمان رمضان کی راتیں تقریبات سے آباد کرتے ہیں اور دن میں دینی وعظ کی  مجالس میں شرکت کرتے ہیں۔  یہ مجالس مساجد میں ہوتی ہیں۔ انتہائی روحانیت کے ساتھ درس میں شریک ہوتے ہیں۔ خود کو دن کے وقت یا تو کام میں مصروف کرلیتے ہیں یا سوجاتے ہیں۔  اکثر ایسا ہی کرتے ہیں۔ رات کے وقت  سڑکیں روشن نظر آتی ہیں۔ شور شرابہ ہوتا ہے۔ اعلیٰ ترین لباس میں ملبوس ہو کر نکلتے ہیں۔ مٹھائیوں سے  لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہر طرح کی  تفریح کرتے ہیں۔'
'وصف مصر'نامی کتاب میں مذکور اسرار
فرانسیسی سیاح ڈوشبرول نے  "جدید مصر کے باشندوں کی روایات اور عادات کا ایک  مطالعہ "کے زیر عنوان مفصل جائزہ تحریر کیا ہے ۔ یہ جائزہ  وصف مصرنامی شہرہ آفاق کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔  انہوں نے اس جائزے میں بتایا ہے کہ اہل مصر رمضان کے دن کس طرح گزارتے اور روزے کی مشقت کس طرح  برداشت کیا کرتے تھے۔
ان کے مطابق 'ہر مصری دن کے  وقت  انتہا درجے کوشش کرتا ہے کہ اس کا کام جلد از جلد مکمل ہو جائے تا کہ  دن کا باقی حصہ آرام سے سو سکے، دکان دار اپنی دکان پر سوتا ہوا نظر آتا ہے، عام لوگ اپنے گھروں کی دیواروں کے برابر میں راستوں پر بستر بچھا لیتے ہیں۔ امیر لوگ اعلیٰ درجے کی بنچ پر اونگھتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ سب لوگ اپنی اپنی جگہ سورج غروب ہونے کا  انتظار کرتے ہیں۔ پھر ہر شخص  تیزی سے اپنے گھر کے لیےدوڑنے لگتا ہے۔'
ڈوشبرول مزید لکھتے ہیں کہ 'خواتین سورج غروب  ہونے کا منظر دیکھنے کے لیےاپنے گھروں کی  بالکنی میں جمع  ہو جاتی ہیں۔  نغموں کی صورت میں افطار اور کھانے کے وقت کا اعلان کرتی ہیں۔ تمام  مساجد اذانوں کی  صدائوں سے گونج اٹھتی ہیں۔ موذن لوگوں کو  نماز کے لیے بلاتے ہیں۔ ہرطرف چہل پہل ہو جاتی ہے۔ عوام الناس گروپوں کی شکل میں  قہوہ خانوں ، گھروں،  مساجد اور کھلے  میدانوں کا رخ کرنے لگتے ہیں۔ ہر شخص پیٹ بھر کر کھاتا ہے۔ کھانے کے بعد تقریبات  اور تفریحی مجالس منعقد ہوتی ہیں۔  صبح سویرے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔'

شیئر: