Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کی حکومت کے خلاف میٹھی میٹھی تحریک کی تیاریاں

مریم نواز نے پارلیمنٹ ہاؤس میں 'ووٹ کوعزت دو' کا نعرہ ایک بار پھر لگا دیا
پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرادی کی جانب سے دیے گئے افطار ڈنر میں شرکت کے دوسرے دن ہی مسلم لیگ نواز کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانشین صاحبزادی مریم نواز نے پارلیمنٹ ہاؤس جا کر 'ووٹ کوعزت دو' کا نعرہ ایک بار پھر بلند کر دیا۔
پارٹی کے نئے عہدیداران کے اجلاس میں شرکت کے بعد انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور نیب کے چئیرمین کو آڑے ہاتھوں لیا اور یہ بھی واضح کر دیا کہ مسلم لیگ نواز میں اب صرف نواز شریف کا بیانیہ چلے گا۔ کیونکہ بقول ان کے دوسرے بیانیے والے بھی اب قائل ہو گئے ہیں۔
مسلم لیگ نواز نے اجلاس میں عید کے بعد ملک بھر میں عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس سے مریم نواز بھی خطاب کریں گی۔
اس سے قبل اتوار کو زرداری ہاؤس میں ہونے والے اپوزیشن اجتماع میں بھی عید کے بعد حکومت مخالف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔
تاہم اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ عید کے بعد حکومت کے خلاف 'دما دم مست قلندر' ہو گا تو اسے یہ جان کر مایوسی ہو گی کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں احتجاج شروع تو کر رہی ہیں مگر یہ ایک ایسی میٹھی میٹھی تحریک ہو گی کہ جس کا مقصد ہو گا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
اپوزیشن اجلاس میں شریک متعدد اراکین سے ملاقات کے بعد اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے۔ جس کے مطابق مولانا فضل الرحمن، میاں افتخار حسین اور حاصل بزنجو سمیت پارلیمنٹ میں چھوٹی جماعتوں کے رہنماؤں کی بھرپور خواہش تھی کہ ’حکومت گراؤ‘ تحریک فوراً شروع کی جائے لیکن بلاول بھٹو اور مریم نواز کے خیال میں تحریک کا مقصد حکومت گرانا نہیں بلکہ اس پر دباؤ بڑھانا ہے۔

مریم نواز شریف کی پارلیمنٹ ہاؤس میں پارٹی اجلاس میں شرکت

چھوٹی جماعتوں کے سربراہان کی جلد بازی سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا کچھ داؤ پر نہیں لگا ہوا مگر بڑی جماعتیں پی ٹی آئی کی حکومت گرا کر اسے مظلوم بننے کا موقع نہیں دینا چاہتیں۔
جہاں تک پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی  کا تعلق ہے تو انہیں حکومت گرانے سے زیادہ دلچسپی نہیں مگر دونوں جماعتوں کو خدشہ ہے کہ اگر تحریک کا اعلان نہ کیا گیا تو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے ستائے لوگ ان کی کال کے بغیر ہی سڑکوں پر نہ نکل آئیں.
اس صورت میں دونوں جماعتیں عوامی مقبولیت کھونے کے خوف کا شکار ہیں۔ اس لیے ایک میٹھی میٹھی تحریک چلانا ان کی مجبوری بن چکا ہے۔
اجلاس میں دونوں بڑی جماعتوں کے حوالے سے چھوٹی جماعتوں نے شکوے شکایات بھی کیے اور کھل کر شکوک و شبہات بھی ظاہر کیے تاہم اس سب کے باوجود احتجاج پر اتفاق رائے ہو ہی گیا۔  

بلاول بھٹو کی جانب سے دیے گئے افطار ڈنر میں تمام اپوزیشن جماعتوں کی شرکت

کچھ اپوزیشن رہنماؤں کا خیال تھا کہ ایک گرینڈ اپوزیشن الائنس کے بغیر حکومت کے خلاف تحریک منظم نہیں ہو پائے گی اس لیے تجویز پیش کی گئی کہ آل پارٹیز کانفرنس بلا کر اتحاد کے خدوخال بھی واضح کیے جائیں اور تحریک کی تفصیلات بھی طے کی جائیں۔ 
دوسری طرف پی ٹی آئی کو اگلے چند ہفتوں میں ایک مشکل بجٹ پیش کرنا اور اسے ایک بپھری ہوئی اپوزیشن کی موجودگی میں پارلیمنٹ سے منظور بھی کرانا ہے۔ 
ڈالر کی قدر میں غیر معمولی اضافے اور سٹاک مارکیٹ کے زوال کے باعث کاروباری اور عوامی حلقوں میں حکومت کی ساکھ پہلے ہی خراب ہو چکی ہے۔ اب خدشہ ہے کہ بجٹ کے بعد حکومت کی عوام میں پذیرائی مزید کم ہو جائے گی جس کے بعد وہ آسانی سے اپوزیشن کے دباؤ میں آجائے گی۔
شاید حکومت کو اپوزیشن کے دباؤ میں رکھنا بہت سارے دوسرے اہم لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کتنا دباؤ برداشت کر پاتے ہیں۔

شیئر: