Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج کا بچہ دراصل اپنے والدین کا باپ یا ماں ہے‎

مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوتی جب میز پر کتاب کے بجائے ٹیبلٹ دیکھتا ہوں/ تصویر unsplash
میری عمر (پچاس پچپن برس) کے لوگ گواہی دیں گے کہ جب ہم بچے تھے تو سورج غروب ہونے کے بعد باہر نہیں کھیل سکتے تھے۔ اس بارے میں کوئی بہانہ یا سفارش باپ کے ڈنڈے یا ماں کی چپل کے سامنے کارگر نہیں تھی۔
یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ کوئی بچہ رات دس بجے کے بعد بستر سے باہر ہو بھلے نیند آئے نہ آئے۔ صرف اس رات دیر تک جاگنے کی اجازت تھی جب اگلے دن یا تو ہفتہ وار یا تہوار کی چھٹی ہو۔
اگر بیماری آزاری جیسی کوئی حقیقی مجبوری نہیں تو سکول سے غیر حاضری تقریباً ناممکنات میں سے تھی اور ناغے کے بعد سکول میں آمد پر غیر حاضری کے سبب سے متعلق درخواست بھی بستے میں ہونی ضروری تھی جس پر بچے کے سرپرست کے دستخط یا انگوٹھا لازمی تھا اور یہ درخواست تب تک موثر نہیں ہوتی تھی جب تک ہیڈ ماسٹر یا ہیڈ مسٹریس اس پر تصدیقی دستخط نہ کردیں۔
سکول کے اوقات کے بعد بھی بچے کی جان نہیں چھوٹتی تھی۔جو بچہ بعد از عصر محلے یا سکول کے گراؤنڈ میں کسی گیم یا سرگرمی میں حصہ نہیں لیتا تھا اس کے بارے میں عمومی رائے یہی ہوتی کہ یا تو یہ بیمار ہے یا پھر  جسمانی طور سے کمزور ہے۔ سکول میں پڑھنے والا کوئی بھی بچہ اگر شام کو ٹیوشن پڑھتا تھا تو اس کے بارے میں یہ تاثر بنتا چلا جاتا کہ شائد یہ سکول کی پڑھائی میں پھسڈی ہے۔

بچے اب زیادہ وقت موبائل اور آن لائن گمیز کھیلتے ہیں/ تصویر unsplash

والدین اور اساتذہ کے نزدیک جو باتیں کبیرہ گناہ تھیں ان میں ہوم ورک مکمل نہ کرنا،  گالم گلوچ سرزد ہونا، کسی بھی جاننے والے بڑے کو دیکھ کر سلام نہ کرنا ، دو بڑوں کی گفتگو کے بیچ بول پڑنا ، اکیلے یا ساتھی بچوں کے ساتھ کسی سینما گھر کے آس پاس یا گلیوں میں بلا مقصد گھومتے پایا جانا،  بازار سے کوئی شے بلا اجازت خرید کے وہیں کھڑے کھڑے کھا لینا، پالتو جانوروں کو بلا جواز تنگ کرنا، پیسے یا کھانے پینے کی اشیا گھر سے یا باہر سے چرانا وغیرہ۔
اس زمانے میں گھر یا سکول میں سرزنشی پٹائی تربیت کا حصہ  تھی فوجداری جرم نہ بنی تھی۔ تب ہی تو والدین بچے کو سکول میں داخل کرواتے وقت دھڑلے سے کہتے تھے ”ماسٹر صاحب ہمارا لختِ جگر آپ کے حوالے ۔ہڈیاں آپ کی گوشت ہمارا‘۔ہمیں اس وقت اپنا باپ قصائی محسوس ہوتا تھا۔لیکن آج لگتا ہے کہ اس قصابی کے پیچھے کیسی محبت چھپی  تھی۔
جب میں آج اپنے یا دوسروں کے بچوں کے شب و روز دیکھتا ہوں تو اپنے بچپنے کی یادوں پر دکھ ہوتا ہے۔ہمیں گھر میں اکثر کفائیت شعاری یا فضول خرچی جیسے الفاظ سننے پڑتے تھے۔آج کا بچہ دراصل اپنے والدین کا باپ یا ماں ہے۔
وہ باقاعدہ والدین کو اپنی ہر پسند نا پسند کے بارے میں حکماً درخواست کرتا ہے اور والدین بہ رضا و رغبت اس بچے کی فرمائشی غلامی پر رضامند رہتے ہیں۔آج کے  والدین یہ تصور ہی نہیں کرسکتے کہ بچے کی جا بے جا فرمائش دراصل محبت نہیں بلکہ اس کی زیرِ تعمیر شخصیت پر کتنا بڑا ظلم ہے۔آج کا بچہ نہ کے مطلب سے ناواقف اور صرف ہاں کے مطلب سے واقف ہے۔اس کے ناز و نعم کا اس کی اخلاقی و تعلیمی تربیت سے اگر کوئی لینا دینا ہے بھی تو واجبی سا ۔
ہمیں اپنے والدین سے کپڑے گندے یا میلے کرنے پر خوب سننا پڑتی تھیں لیکن آج کے بچے کو اس بارے میں کوئی تشویش نہیں کیونکہ اسے کپڑے دھونے کے صابن یا ڈیٹرجنٹ کے اشتہارات سے یہ تعلیم مل رہی ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔اسے ہر ماہ نئے کپڑے دلانا والدین کا فرض ہے۔

اب مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوتی جب میں ایک بارہ سالہ بچے کے ہاتھ میں موبائیل فون دیکھتا ہوں/ تصویر unsplash

اگر روزانہ نہیں تو ہر ہفتے ایک نیا کھلونا ضرور چاہئیے۔کس بچے کو اپنی عمر کے اعتبار سے کون سا کھلونا چاہئے اس کا فیصلہ بچہ خود کرتا ہے اور آج کل وہ پلاسٹک کی بندوق یا پستول وغیرہ سے کم پر راضی نہیں ہوتا کیونکہ اس کا دیگر ہم عمروں سے کڑا مقابلہ ہے۔وہ فٹ بال، کرکٹ ، ہاکی یا بیڈ منٹن صرف ٹی وی پر دیکھتا ہے اور خود محلے یا خاندان کے بچوں کے ساتھ ” خود کش بمبار ” یا ڈاکو ڈاکو یا اغوا کار کھیلنا پسند ہے۔بچوں کی دو ٹیموں میں سے ایک ظالم اور دوسری مظلوم بن جاتی ہے اور پھر پوزیشنیں بدل لی جاتی ہیں۔
باہر کب تک رہنا ہے اور رات کو کس وقت گھر لوٹنا ہے اس کا فیصلہ بھی بچے خود کرتے ہیں۔گھر آ  کر ماں کے ہاتھ کا کھانا کھانا ہے یا باہر کا برگر آرڈر کرنا ہے اس کا فیصلہ بھی بچہ خود کرتا ہے۔ آئس کریم خود خریدنے کے لیے بھی پیسے چاہئیں۔ رات کو وہ اپنے والدین کو سلا  کر کمپیوٹر گیمز آف کرکے سوتا ہے اور صبح جب سکول کے لیے روانہ ہوتا ہے تو آدھا سوتا جاگتا کلاس روم تک پہنچتا ہے

میز پر کتاب کے بجائے ٹیبلٹ دیکھتا ہوں جس میں کتاب نہیں بلکہ گیمز اپ لوڈ ہوتے ہیں/ تصویر unsplash

سرزنش، سزا، مار، یہ اصطلاحات اس کے لیے اجنبی ہیں۔ ٹی وی ڈراموں یا فلموں سے لئے گئے ڈائیلاگ اس بچے کی لسانی زہانت کے طور پر فخریہ انداز میں بتائے جاتے ہیں۔ٹیوشن نہ پڑھنے کا سبب والدین کی غربت تو ہوسکتی ہے بچے کی تعلیمی کمزوری ہرگز نہیں۔سکول میں اگر گریڈ کم آ رہا ہے تو یہ بچے کا نہیں ٹیچر یا سکول کا قصور ہے۔اگر محلے سے اس کی کوئی شکائیت آئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمسائے اس سے جلتے ہیں۔
اب مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوتی جب میں ایک بارہ سالہ بچے کے ہاتھ میں موبائیل فون دیکھتا ہوں جو اسے سالگرہ پر آنٹی کی جانب سے تحفے میں ملا ۔اس کی میز پر کتاب کے بجائے ٹیبلٹ دیکھتا ہوں جس میں کتاب نہیں بلکہ گیمز اپ لوڈ ہوتے ہیں۔ اس کی کلائی پر گھڑی دیکھتا ہوں، گویا کسی کارپوریٹ میٹنگ میں پہنچنے سے دیر نہ ہوجائے۔ایک چودہ برس کے بچے کی زاتی موٹر سائیکل دیکھتا ہوں اور حیرانی نہیں ہوتی کیونکہ اس کے ساتھ کے بچوں کے پاس تو اپنی زاتی کاریں اور مسلح محافظ ہیں۔
اب اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں ایک سٹھیایا ہوا بڈھا ہوں جو اپنے دور کو اچھا اور آج کے دور کو حسبِ عادت برا کہہ رہا ہے تو شائد آپ ٹھیک ہی سوچ رہے ہیں۔
 
 

شیئر: