Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کا جارحانہ انداز، کیا بجٹ پاس ہوگا؟

بلاول بھٹو نے کہا کہ ریفرنسز ججز پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھیجے گئے: تصویر اے ایف پی
جمعہ کوقومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو پریس گیلری میں موجود ہر صحافی کو توقع تھی کہ آج اس میں اعلی عدلیہ کے ججوں کے خلاف حکومتی ریفرنسز اور وزیرستان کے دو گرفتار ایم این ایز علی وزیر اور محسن داوڑ کے معاملے پر بات ہو گی۔
دوسری طرف سینیٹ کا اجلاس بھی اسی وقت شروع ہو گیا۔
ان دونوں معاملات پر اپوزیشن کا رویہ خاصہ جارحانہ تھا اورپیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو پہلے ہی دونوں ارکان اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ تحریری طور پر پیش کر چکے تھے۔
تاہم قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ہی اس وقت صورتحال کشیدہ ہو گئی جب وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے گرفتار  ارکان کی رکنیت منسوخ کرنےکا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں جس کی وجہ سے افراتفری پھیلی اسے ایوان میں بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔
اس موقع پر بلاول بھٹو نے بات کرنے کی اجازت چاہی مگرحکومتی بینچز سے ایم کیو ایم کے ارکان احتجاجی بینرز لے کر ان کی نشست کے سامنے آگئے اور قریب تھا کہ ایوان میں ہاتھا پائی ہو جاتی کہ سپیکر نے اجلاس ملتوی کر دیا۔

سینٹ میں اعلی عدلیہ کے ججوں کے خلاف ریفرنس پر قرارداد
 دوسری طرف سینٹ میں ایک طرف حکومت کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے لائے گئے بل پر شکست کا سامنا ہوا تو دوسری طرف اپوزیشن نے ججز ریفرنسز کے خلاف مذمتی قرار داد پیش کی۔
حکومتی مخالفت کے باوجود قرارداد ایوان سے کثرت رائے سے منظور ہو گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ’ایوان معزز ججز کے خلاف ریفرنسز پر تشویش کا اظہار کرتا ہے، ریفرنسز خفیہ انداز میں دائر کیے گئے ہیں جن کا ججز کو علم نہیں تھا۔‘
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ ریفرنسزاعلیٰ عدلیہ پر براہ راست حملہ ہیں، بار ایسوسی ایشنز نے بھی ریفرنسز کی مخالفت کی ہے۔ حکومت ججز کے خلاف ریفرنس واپس لے،
حکومتی ارکان نے سینٹ میں شور شرابہ تو کیا مگر  دونوں بار ہزیمتوں کو نہ روک سکے۔ اجلاس کے بعد سینٹ میں قائدایوان شبلی فراز نے پریس کانفرنس میں اپوزیشن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام عائد کیا کہ اپوزیشن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد میں اضافے کے معاملے پر عوامی مفاد کو مدنظر نہیں رکھا۔ ججز ریفرنس کے حوالے سے قرارداد پر ان کا موقف تھا کہ اپوزیشن نے حکومتی ارکان کو اعتماد میں نہیں لیا۔

قومی اسمبلی میں موقع نہ ملنے پر مشترکہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ ہاوس کے باہر پریس کانفرنس میں ججز کے خلاف ریفرنس کو حکومتی سازش قرار دیا۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت سلیکٹڈ عدلیہ چاہتی ہے، ججز پر دباؤ ڈالنے کے لیے ریفرنسز بھیجے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا علی وزیرا ور محسن داوڑ کے پروڈکشن آرڈر کی تحریری درخواست انہوں نے سپیکر قومی اسمبلی کو بھیج رکھی ہے مگر اب تک عمل درآمد نہیں ہوا۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے سینیئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت عدلیہ کی ٹارگٹ کلنگ پر اتر آئی ہے۔ حکمران چاہتے ہیں کہ ججز ان کی مرضی کے فیصلے دیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اس فیصلے کی مذمت بھی کرے گی اور مزاحمت بھی۔اپوزیشن کی پریس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ حکومت کی ناراض اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل بھی اس میں موجود تھے۔ انہوں نے بھی ججز کے خلاف ریفرنس کی بھر پور مذمت کی ۔
اس ساری صورتحال میں حکومتی ارکان کی پریشانی قابل دید تھی۔ صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں ایک رکن نے کہا کہ حکومت کے لیے ایوان سے بجٹ پاس کرانا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ اس وقت اپوزیشن کی سیاسی حکمت عملی حکومتی بنچز سے زیادہ موثر ہے اور حکومت دونوں ایوانوں میں اپنا دفاع کرنے میں کمزوری دکھا رہی ہے۔ تاہم انہیں اعتماد تھا کہ بجٹ سے قبل اختر مینگل کے کچھ مطالبات منظور کر کے انہیں راضی کر لیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اختر مینگل کی جماعت کی طرف سے ووٹ نہ دینے کی صورت میں حکومت کو بجٹ پاس کرنے کے لیے سادہ اکثریت بھی حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ایک اپوزیشن رکن کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں جس طرح اپوزیشن کو بولنے سے روکا گیا اس کے بعد حکومت یہ نہ سمجھے کہ بجٹ سیشن میں اسے کوئی رعایت ملے گی۔
بجٹ جون کے دوسرے ھفتے میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

شیئر: