Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہوم سکولنگ: پست معیار تعلیم سے پریشان والدین کی امید

یہ اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین کے ایک متوسط گھرانے کا ڈرائنگ روم ہے۔ اس میں 20 کے قریب بچے بیٹھے ہیں۔ اور ان کے سامنے کھڑی ایک خاتون انتہائی اثرانگیز اندازمیں انگریزی میں کچھ پڑھا رہی ہیں۔ 
بچے انہماک سے سن رہے ہیں اور بیچ بیچ میں خوش گپیاں اور چھوٹی موٹی شرارتیں بھی کر رہے ہیں جس سے ان کو پڑھانے والی خاتون بھی محظوظ ہو رہی ہیں۔
یہ نشست ملک بھر میں بڑھتے ہوئے ’ہوم سکولوں‘ میں سے ایک ہے جو مختلف عمروں کے بچوں کے والدین نے روایتی سکولوں کے ماحول اور ان کی انتظامیہ کے رویوں سے تنگ آ کر شروع کیے ہیں۔
’ہوم سکولنگ‘ کا تصور تاریخ میں صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کو بھی یونان کے ممتاز فلسفی اور مفکرارسطو نے ہوم سکول کیا تھا۔

عائشہ ادریس اور ان کے شوہر نے بھی ان عوامل سے تنگ آکر ہوم سکولنگ ایک تجربے کے طور پر شروع کیا۔
پاکستان کا روایتی تعلیمی نظام بچوں کی تعلیم و تربیت کی بجائے محض ’ان کا بچپن چھیننے‘ کا باعث بن رہا ہے۔

مغرب میں ایک عرصے تک مراعات یافتہ طبقے کی پہچان رہی ہے کہ ان کے بچے عوامی تعلیم حاصل کرنے کے بجائے گھر میں ذاتی استاد سے پڑھتے تھے۔
تاہم پاکستان میں ہوم سکولنگ کا تصورابھی نیا نیا پروان چڑھ رہا ہے اور وہ بھی شعبہ تعلیم کی طلبہ کو عدم توجہی کے باعث۔
سکولوں میں معیار تعلیم سے مایوس ہو کر گھروں میں غیر روایتی سکول شروع کرنے والے والدین بالخصوص مائیں موجودہ تعلیمی نظام سے خفا ہیں جو انتہائی کمرشلائز ہونے کی وجہ سے صرف ’پیسے بنانے والی مشین‘ بن چکا ہے۔
ان کے بقول پاکستان کا روایتی تعلیمی نظام بچوں کی تعلیم و تربیت کی بجائے محض ’ان کا بچپن چھیننے‘ کا باعث بن رہا ہے۔
عائشہ ادریس اور ان کے شوہر نے بھی ان عوامل سے تنگ آکر ہوم سکولنگ ایک تجربے کے طور پر شروع کیا۔
انکی بچی، جو اب دس برس کی ہے، صرف ایک سال کے لیے سکول گئی اور پھر انہوں نے اس کو گھر پر ہی پڑھانا شروع کر دیا۔

ہوم سکولنگ میں گہرائی کے ساتھ مضامین پڑھائے جا سکتے ہیں اور ان کے چننے میں ورائٹی بھی ہوتی ہے۔
ہوم سکولنگ میں گہرائی کے ساتھ مضامین پڑھائے جا سکتے ہیں اور ان کے چننے میں ورائٹی بھی ہوتی ہے۔

عائشہ کے نزدیک موجودہ بوسیدہ اور استحصالی تعلیمی نظام سے بچاو کیلیے ہوم سکولنگ کے علاوہ کوئی اور حل نہیں۔ 
’’ہوم سکولنگ میں گہرائی کے ساتھ  مضامین پڑھائے جا سکتے ہیں اور ان کے چننے میں ورائٹی بھی ہوتی ہے۔ لیکن سکول میں طے شدہ سلیبس کی حدود میں رہ کرہی سکھایا جاتا ہے۔‘‘
بے نظیر جتوئی، جنہوں نے حال ہی میں کلاس دوئم اور سوئم میں پڑھنے والے اپنے دو بچوں کو ایک نجی سکول سے نکا لا ہے، کہتی ہیں کہ پاکستان کے سکولوں میں بچوں پر توجہ نہیں دی جاتی اور محض مضامین رٹا کر ان کی تنقیدی سوچ اورتخلیقی صلاحیتوں کو دبایا جاتا ہے۔
’’سکولوں میں تعلیم کے بنیادی جزہی موجود نہیں، یعنی کلاس کا سائز چھوٹا ہونا اور ہر بچے کو برابر توجہ ملنا۔‘‘
ایک اورخاتون ثنا ہاشم جنہوں نے اپنی سب سے بڑی بیٹی کو پانچویں جماعت میں سکول سے نکلوا لیا تھا اوراب ان کو او لیول کے امتحان کی تیاری کروا رہی ہیں، کو سکول میں پست تعلیمی معیار کے علاوہ نظم و ضبط کے مسائل بھی درپیش رہے۔
’امتحانوں میں اساتذہ بچوں کو سوال حل کرنے میں مدد دیتے تھے صرف اس لیے کہ ان کے مضامین کا نتیجہ اچھا آئے۔‘
ثنا کہتی ہیں کہ سکول میں بچوں کو فون لانے کی بھی آزادی تھی جس سے انکی پڑھائی پر بالکل توجہ نہیں رہتی تھی۔
گھروں پر ہونے والی بعض تعلیمی نشستوں میں ہر عمر کے بچے مشترکہ طور پرشرکت کرتے ہیں۔ جیسے کہ تاریخ اورمالیات سے متعلق سیشن میں شمولیت کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ اس میں تین سال سے لے کر پندرہ سال تک کے بچے اور بچیاں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے کبھی سکول کا رخ نہیں کیا۔


ہوم سکولز کا ماحول روایتی سکولوں کے کمرہ جماعت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔

ہوم سکولوں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انکے کلاس رومز کاماحول روایتی سکولوں کے کمرہ جماعت سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جہاں ذہن تخیل کی پرواز کے لیے مکمل آزاد ہو۔
اور سیکٹر جی ٹین کے اس ’ڈرائنگ روم سکول‘ میں بچے ریلیکس ماحول میں ہنستے مسکراتے ایسے بے دھڑک سوال کررہے تھے، جیسے کوئی کھیل کھیل رہے ہوں۔
ان سیشنز میں بچوں کی آسودگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انکو پڑھانے والی خود مائیں ہیں جواعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور مختلف مضامین پر مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے ساتھ حسن سلوک کا بھی خصوصی خیال رکھتی ہیں۔
ہوم سکولوں کے طلبہ کے باقاعدہ فیلڈ ٹرپس بھی منعقد کئے جاتے ہیں۔ جیسے مختلف پودوں اور درختوں کی جانچ کے لیے پارک اور سائنس کلاس میں پلوں کی تعمیر پر لیکچر کے بعد شہر کے مختلف پلوں کا عملی مشاہدہ۔
بچوں کی سوشلائزیشن کیلیے علمی سیشن کے بعد بچوں کو آپس میں کھیلنے کا موقع دیاجاتا ہے۔
ان بچوں کی علمی یا دیگر ضروریات کا دارومدار صرف ان چند علمی سیشنز پر ہی نہیں، بلکہ ہرگھرانہ انفرادی طور پرجامع نصاب کے تحت بھی تعلیم دے رہا ہے، اوربعض اوقات پیشہ ور اساتذہ کی خدمات بھی گھر پر ہی حاصل کی جاتی ہیں۔
عائشہ ادریس کے مطابق بچوں کی ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے تیراکی، کراٹے اور روبوٹکس کے مقابلے بھی منعقد جاتے ہیں۔
ہوم سکولنگ سے جہاں بچوں کو ان کے من پسند ماحول میں تعلیم کا موقع مل رہا ہے، وہاں والدین کے سالانہ لاکھوں روپے بھی بچ رہے ہیں جو وہ ماہانہ فیسوں اور دیگرمدوں میں نجی سکولوں کو جمع کروا رہے تھے۔

شیئر: