Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کے جیولری مارکیٹ سے ’20 کلو سونا غائب‘، شہری بینک لاکرز کا انتخاب کیوں نہیں کرتے؟

شیخ وسیم اختر کی دکان پر متعدد جیولرز نے اپنا سونا امانتاً رکھوایا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے مبینہ طور پر 20 کلو گرام سونا غائب ہونے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق لاہور کے علاقے اچھرہ سے غائب ہونے والے سونے کی مالیت سے متعلق دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ ایک ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
پولیس کے مطابق شیخ وسیم اختر کی دکان پر متعدد جیولرز نے اپنا سونا امانتاً رکھوایا تھا۔ جب وہ کئی روز سے دکان پر نہیں آئے تو تاجروں نے خود کارروائی کرتے ہوئے لاکر کھول کر چیک کیا۔
لاکر خالی نکلنے پر انہوں نے شیخ وسیم پر غبن کا الزام عائد کیا اور اچھرہ تھانے میں درخواست جمع کرائی۔
ایس پی ماڈل ٹاؤن شہربانو نے بتایا کہ معاملے کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
ماڈل ٹاؤن ڈویژن کے پولیس ترجمان نے اردو نیوز کو واضح کیا کہ اب تک صرف ایک درخواست موصول ہوئی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ درخواست گزار نے سونا ایک دکان دار کے پاس امانتاً رکھوایا تھا اور وہ اب غائب ہے۔
پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ متعدد دکانداروں نے شیخ وسیم نامی تاجر کے ساتھ سونا رکھوایا تھا جو کہ اب مبینہ طور پر موقعے سے فرار ہیں۔
’تاحال ایک درخواست گزار ہے جو مزید قانونی کارروائی سے گریزاں ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز کی ہدایات پر ایس پی ماڈل ٹاؤن معاملے کی نگرانی کر رہی ہیں اور تفتیش جاری ہے۔‘
اس معاملے میں ایک اہم پیش رفت شیخ وسیم اختر کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا منظرعام پر آنا ہے۔
فوٹیج میں انہیں ہاتھوں میں شاپنگ بیگز اٹھائے پلازہ سے نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس ترجمان نے بتایا کہ شیخ وسیم چار دسمبر سے دکان کو تالے لگا کر غائب ہیں۔

لاکرز میں رکھی گئی اشیا کی انشورنس کلیم کی رقم زیادہ سے زیادہ 40 لاکھ روپے تک ہوتی ہے (فائل فوٹو: پکسابے)

’چونکہ یہ کئی دکانداروں کا سونا تھا اور اب کئی لوگ دعوے دار بن رہے ہیں لیکن اب تک درخواست ایک ہی آئی ہے۔ جب دعوے دار واضح ہو جائیں تو تفتیش آگے بڑھے گی۔ ابھی پولیس دعوے داروں کا تعین کر رہی ہے جبکہ ہر کوئی آ کر دعویٰ کر رہا ہے۔ پولیس تمام کوائف مکمل کر کے تفتیش کو آگے بڑھائے گی۔‘
چند روز قبل خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں ڈاکٹر وردہ نامی ایک خاتون کے قتل کا معاملہ منظرعام پر آیا تھا۔
ڈی پی او ایبٹ ہارون رشید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتولہ ڈاکٹر وردہ کی سہیلی ردا انہیں ہسپتال سے ساتھ لے کر گئی اور اغواء کے آدھے گھنٹے بعد ہی انہیں قتل کر دیا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر وردہ نے 2023 میں ملزمہ ردا کے پاس 67 تولے سونے کے زیورات رکھوائے تھے جبکہ مقتولہ کی سہیلی انہیں زیورات واپس کرنے ساتھ لے گئی تھی۔
ان دونوں واقعات سے ایک اہم سوال سامنے آرہا ہے کہ شہری بڑی مقدار میں سونا یا قیمتی اشیا دوستوں، رشتہ داروں یا دیگر افراد کے پاس کیوں امانتاً رکھتے ہیں؟ کیا بینکوں کے لاکرز اس مقصد کے لیے موزوں نہیں؟
لاہور کے ایک نجی بینک کے ملازم (جو کہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے) نے اردو نیوز سے گفتگو میں اس کی وجوہات بیان کیں ہیں۔ ان کے مطابق بینک لاکرز کا نظام کافی پیچیدہ ہوتا ہے۔

اچھرہ سے غائب ہونے والے سونے کی مالیت ایک ارب روپے بتائی گئی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’لاکر حاصل کرنے کے لیے کئی دستاویزات اور تصدیقی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جو عام شہریوں کے لیے پیچیدہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بینکوں کی انشورنس پالیسیاں بھی محدود ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ لاکرز میں رکھی گئی اشیا کی انشورنس کلیم کی رقم زیادہ سے زیادہ 40 لاکھ روپے تک محدود ہوتی ہے۔
’اگر لاکر سے چوری یا نقصان ہو جائے تو بینک کی طرف سے صرف اسی حد تک معاوضہ ادا کیا جاتا ہے۔ چاہے اندر موجود اشیا کی مالیت کروڑوں میں ہی کیوں نہ ہو۔‘
لاہور اور ایبٹ آباد کے حالیہ کیسز میں سونے کی مالیت اس سے کئی گنا زیادہ ہے اور یہ انشورنس کی حد سے کہیں اوپر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس لیے لوگ اکثر بینک لاکرز سے گریز کرتے ہیں اور زیادہ مالیت کے سونے کو گھروں میں یا قابل اعتماد افراد کے پاس رکھتے ہیں۔ تاہم یہ طریقہ بھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔‘

شیئر: