بلاول بھٹو کے مثبت تبصروں پر مریم نواز کا پرتپاک خیرمقدم، سیاسی تناؤ میں کمی کا اشارہ؟
بلاول بھٹو کے مثبت تبصروں پر مریم نواز کا پرتپاک خیرمقدم، سیاسی تناؤ میں کمی کا اشارہ؟
جمعہ 12 دسمبر 2025 18:05
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
بلاول بھٹو نے صحافیوں سے ملاقاتوں میں وزیراعلیٰ پنجاب کے صوبے میں ترقیاتی کاموں کی تعریف کی (فوٹو: ویڈیو گریب)
چند دن قبل لاہور کے گورنر ہاؤس میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے چند صحافیوں سے ملاقات کی۔
اس غیر رسمی ملاقات میں بلاول بھٹو نے مختلف سیاسی موضوعات پر کھل کر بات کی تاہم اس گفتگو کو رپورٹ کرنے سے منع کر دیا۔
اس نشست میں ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جب سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی نے بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا کہ کیا وہ عشائیے کے لیے رائیونڈ جا رہے ہیں؟ تو وہ اس کا کوئی جواب دیے بغیر صرف مسکرا دئیے۔
بلاول بھٹو پچھلے ایک ہفتے سے لاہور میں ہیں اور اب صدر آصف علی زرداری بھی یہاں پہنچ گئے ہیں۔ بلاول بھٹو پارٹی عہدیداروں، ورکرز اور صحافیوں سے مل رہے ہیں تو آصف علی زرداری نے بھی آتے ہی ایسی ملاقاتوں کو سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
اس دوران ایک دلچسپ سیاسی صورت حال پیدا ہوئی جب بلاول بھٹو نے صحافیوں سے ملاقاتوں میں وزیراعلیٰ پنجاب کے صوبے میں ترقیاتی کاموں کی تعریف کی۔
جمعرات کی شب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اپنے ایکس ہینڈل پر ایک ٹویٹ کیا جس میں بلاول بھٹو کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں بلاول کو ان کے پنجاب دورے کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہتی ہوں۔ پنجاب آپ کا گھر ہے۔ آپ کو یہاں سے ہمیشہ عزت ملے گی۔ آپ کے مہربان تبصروں کا شکریہ۔ آپ کے لیے میری نیک تمنائیں اور دعائیں ہیں۔‘
جمعے کو اس ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے لکھا ’پرتپاک خیرمقدم اور مثبت اشاروں کے لیے شکریہ میڈم چیف منسٹر۔‘
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان گزشتہ عرصے میں تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا جن کا آغاز پنجاب میں آنے والے سیلاب کے بعد ہوا تھا اور وزیراعلیٰ مریم نواز نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’جو پنجاب کی طرف انگلی کرے گا، اس کی انگلی توڑ دی جائے گی۔‘
اس وقت پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں بظاہر کوئی بڑی ہلچل نہیں ہے۔ دونوں حلیف جماعتوں کے درمیان گرم جوشی کا کوئی سیاق وسباق بظاہر نظر نہیں آ رہا۔
اس تناظر میں سوال پیدا ہو رہا ہے کہ یہ برف پگھلی کیسے اور ان ’مثبت‘ اشاروں کا مطلب کیا ہے۔‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی سے جب اردو نیوز نے اس بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس اس بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں۔ گورنر ہاؤس میں تو میں نے سرراہ بات پوچھی تھی، میرا خیال تھا کہ وہ پنجاب میں آئے ہیں تو یقیناً مہمان ہیں تو ان کو ویسی ہی پذیرائی بھی ملنی چاہیے۔‘
’اب چونکہ زرداری صاحب بھی آ گئے ہیں تو اب تو اور لازم ہے، یہ رکھ رکھاؤ کی بات ہے۔ لیکن اس کی کوئی سیاسی توجیہہ ابھی کرنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بات خوش آئند ضرور ہے۔‘
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’معلومات تو ہمارے پاس بھی نہیں ہے لیکن جس طرح سے پارٹی صدر نواز شریف اب براہ راست میدان میں آنے لگے ہیں تو وہ رواداری کے قائل ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو کسی بھی طرح کی سخت بیان بازی سے روک دیا ہے۔ ‘
بلاول بھٹو کے بعد صدر آصف علی زرداری بھی لاہور میں پہچے ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’بظاہر تو لگتا ہے کہ چونکہ دونوں پارٹیوں کا اب ایک دوسرے سے دور ہونا انتہائی مشکل ہے۔ اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیان بازی اور پھر مفاہمت دونوں سیاسی طور پر ضروری ہوتے ہیں۔‘
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سیاسی مبصرین بھی اس اچانک ’پگھلنے‘ والی برف کو سیاق و سباق سے بغیر ہی دیکھ رہے ہیں۔ تاہم اگر اگلے چند دنوں میں صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی نواز شریف سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے تو پھر یقیناً اس صورت حال کے تجزیے کی کئی صورتیں ہوں گی۔