Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سندھ کا رنی کوٹ قلعہ، ایک حیرت کدہ

یہ سندھ کی ہمہ گیریت ہی ہے جس کی وجہ سے سندھ دنیا کے لیے باعث کشش بنا ہوا ہے۔ جہاں آنے والا ہر مسافر نئے مقامات اور آثار قدیمہ دیکھنے کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اسی طرح نئے نئے راستے اور ڈگر کسی مسافر کے انتظار میں ہوتے ہیں مگر ان پہ وہی سفر کرسکتا ہے جسے کچھ تکالیف سہنے کا ہنر ہو۔
رنی کوٹ ایک پراسرار قلعہ سمجھا جاتا ہے، جس کی تعمیر اور کاریگری سے کون واقف نہیں ہے مگر اس بار میرا سفر اس لیے بھی اہم تھا کیوں کہ میں نے رنی کوٹ کے بارے میں ہمیشہ سنا تھا، اس کی تصاویر ویب سائٹس پر دیکھ  رکھی تھیں۔ میرا سفر حیدرآباد سے رنی کوٹ کے لیے شروع ہوگیا۔


رنی کوٹ  ایک پراسرار قلعہ سمجھا جاتا ہے جو جامشورو ضلع میں واقع ہے۔

یہ قلعہ سن کے قریب جامشورو ضلع میں واقع ہے۔ مگر آج بھی اس قلعے کے حوالے سے کئی سوالات موجود ہیں جن کے جوابات درکار ہیں۔ جیسے اس قلعے کا نام کیسے پڑا، اس کا پس منظر کیا ہے۔ قدیم زمانے میں قلعے اس لیے تعمیر کیے جاتے تھے کہ حکمران اپنے اقتدار اور اپنے علاقے کی حفاظت کرسکیں۔ مگر پھر بھی دشمن کی افواج ان قلعوں کو فتح کرتی تھیں۔ آج بھی سندھ میں کئی ایسے قلعے دیکھے جا سکتے ہیں مگر اب دن بدن ان کی حالت خستہ ہوتی جا رہی ہے۔
رنی کوٹ قلعے کے چار اہم ترین دروازے ہیں۔ جن میں (1) سن یا مشرقی دروازہ (2) آمری یا شمال مشرق دروازہ (3) شاہ پیر دورازہ (4) مغربی یا بالائی دروازہ (موئن گیٹ)

سن دروازہ: شاہی دروازہ یا سن دروازہ نظر سے اس طرح اوجھل رکھا گیا ہے کہ ایک گول ستون کی بائیں جانب سے گولائی سے گھوم کر جانے کے بعد وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ جب تک اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے تب تک اس کو تلاش کرنا دشوار ہے۔ اس دروازے کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ ایک راستہ بھی تھا اور ایک اوپر اٹھنے والا پل بھی۔ اس دروازے کی دائیں جانب ایک چشمہ بھی ہےجس کے اوپر لکڑیوں کی تختیوں سے بنا ہوا ایک پل بھی تھا، اس پل کو پار کرکے قلعے کی دوسری جانب جانا پڑتا تھا۔
شاہ پیر دروازہ: جنوبی دروازہ یا شاہ پیر دروازہ آمری دروازے سے نیچے ہے۔
موئن دروازہ: مشرقی دروازہ بالائی دروازہ ہےجوقلعے کے اوپر والے حصے میں ہے۔
آمری دروازہ: یہ آمری شہر کے سامنے اور قلعے کے شمال مشرق میں ہے۔
میری اور شیر گڑھ:
قلعے کے اندر سن دروازے کی شمال کی جانب چار پانچ میل کے مفاصلے پر دو عمارات ہیں، حقیقت میں یہ قلعے کے اندر جدا جدا سطحوں کےدو قلعے یا کوٹ ہیں۔ نچلی سطح والے قلعے کو میری کوٹ جبکہ بالائی سطح والے قلعے کو شیر گڑھ کہا جاتا ہے۔

رنی کوٹ کے نام کے حوالے سے بھی کئی روایتیں مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ رنی نام کی اصلیت اور بنیاد کو سندھی زبان میں تلاش کیا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک لفظ رنی ہی نہیں بلکہ دیگر بھی ایسے کئی الفاظ ہیں، جو ایک ہی بنیاد میں سے نکلے ہیں۔ جن کی معنی، تعبیر اور مفہوم ایک ہی ہے۔ رنی کا سندھی میں ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پانی کا ایک ایسا بہاؤ جوکہ انسانی ہاتھوں سے نہ بنایا گیا ہو، بلکہ فطری ہو۔
مشہور محقق علی احمد بروہی اپنے مضمون “رنی کوٹ” میں لکھتے ہیں کہ ’’رنی کے آثار کے بعد رنی کوٹ پربحث کی باری آتی ہے، اس سلسلے میں میری چند ذاتی آرا ہیں۔ جن کے سوائے عقلی دلائل کے کوئی بھی تاریخی ثبوت نہیں ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ رنی کوٹ قدیم زمانے کا سندھ کا نیرون کوٹ ہے۔ یہ دلیل محض ادبی ہے۔ وہ اس لیے کہ یہاں پر قائم ایک نئن( پانی کا قدرتی بہاؤ) کا نام رنی ہے۔ کیوں کہ ہر نئن کے آگے نئن کا لفظ آنا ایک اصولی بات ہے، جیسے نئن گاج، نئن مکھی وغیرہ۔ میرے خیال میں نیرون کا نام نئن اور رنی کا مرکب ہے، ان دونوں کو ملا کر پڑھا جائے تو نئن رنی بنتا ہے۔ “

سندھ کی تاریخی کتاب “چچ نامہ” میں نیرون کوٹ کا خاصہ ذکر ملتا ہےجوایک پہاڑی قلعہ تھا اور جہاں شمنی یا بدھ کے پروہت رہتے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ وہاں ایک عبادتگاہ بھی تھی کیونکہ ’جئہ سن‘ کے لیے کہا جاتا ہے کہ نیرون کوٹ میں مذہبی عبادت کے لیے ٹھہرا ہوا تھا، اس قلعے کا پیشوا ایک شمنی تھا۔ شمنی کا لفظ عرب اور بدھ مت یا جین مت میں پنڈتوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ محمد بن قاسم کے آنے سے قبل  پہلے قلعے کے دروازے بند کیے گئے کیونکہ پیشوا راجہ داہر یہاں تھا۔ اس کی واپسی پر دروازے کھول کر عرب لشکر کو خوش آمدید کہا گیا پھر لشکر قلعے کی پسگردائی میں کیمپ میں رہا۔نیروں کوٹ والوں کے دارالخلافہ سے دوستانہ تعلقات تھےاور صلح سے قبل عہدنامہ بھی کیا گیا تھا۔ نیرون کوٹ کے حوالے سے محمد بن قاسم نے اپنی ایک رپورٹ میں گورنر حجاج بن یوسف کو لکھا کہ نیرون کوٹ دارالخلافہ سے قریب تر علاقہ ہے۔ ان دنوں عربوں کا درالخلافہ بغداد تھا۔

نیرون کوٹ کے حوالے سے اس خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ “ہم ایک ایسے قلعے کے قریب کیمپ میں ہیں جو سکندر یونانی کی  تعمیر کی گئی شاہی دیوار سے کئی گنا مضبوط قلعہ ہے۔” یہ اشارہ سکندر ذالقرنین کے یاجوج ماجوج  والےحملوں کے خلاف تعمیر کی گئی شاہی دفاعی دیوار کی جانب ہے۔ چچ نامہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عرب جرنیل بذیل دیبل پر حملہ کرنے سے قبل نیرون کوٹ میں آکر ٹھہرا اور پھر دیبل پر چڑھائی کی۔
یوسف میرک کی تاریخ مظہر شاہ جہانی کے مطابق سیہون سرکار میں نیرون کوٹ نام سے دو مقامات ہیں۔ ایک نیرون کا قلعہ اور دوسرا نیرون کوٹ علاقہ۔  نیرون کوٹ سیہون سے 50 میل کے فاصلے پر ایک کٹھن اور دشوار پہاڑوں کے بیچ میں تعمیر کیا گیا ہے۔ پہلے یہ قلعہ چاکر ہالا والے علاقے میں تھا،  بعد میں اسے سیہون سرکار میں شامل کیا گیا۔
دوسری رائے یہ ہے کہ رنی کوٹ کا قدیم نام موئن کوٹ تھا، جہاں دیوی کی عبادت گاہ تھی اور وہاں  یاتری اور پجاری آتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ہنگلاج کے آستان کی ایک کڑی ہو جہاں تمام اطراف سے قافلے آکر جمع ہوتے ہوں۔ پھر ایک بڑے قافلے کی شکل میں سفر کرتے ہوں۔ قدیم نقشوں میں اسے موئن کوٹ کہا گیا ہے جورنی کوٹ کے مغرب میں قائم بھی ہے۔ قلعے کے اندر داخل ہونے سے قبل والے حصے کو نئن موئن کہا جاتا ہے جو  اکثر حصے تک زیر زمین بہتی ہے۔

یہ قلعہ آپ ایک دن میں نہیں گھوم سکتے کیونکہ اس کے ان گنت برج پہاڑی سلسلے کی مختلف چٹانوں پر بنائے گئے ہیں جن پر پہنچنا بہت ہی مشکل ہے۔
شیر گڑھ والے رستے کے بعد پیدل چل کر موئن گیٹ تک پہنچ سکتے ہیں جہاں میٹھے پانی والے چشمے ہیں اور وہاں پہاڑوں سے نکلنے والے پانی کی آواز کو خاموشی میں بخوبی سنا جاسکتا ہے۔ موئن دروازہ اس قلعے کا اہم ترین راستہ ہے۔
یہاں چند برج مربع شکل کے بھی ہیں جن پر پہنچنے کے لیے سیڑھیاں ہیں۔ جہاں کھڑے ہو کر رنی کوٹ اور آس پاس کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔مگر آج ان برجوں کی جانب جانے والی سیڑھیاں ٹوٹ گئی ہیں جبکہ چند برجوں کی مرمت بھی کی گئی ہے۔
اس قلعے کا مرمتی کام تالپور دور میں ہوا تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ قلعہ ساسانیوں نے تعمیر کروایا تھا۔ کچھ عرصہ قبل محکمہ ثقافت اور آثار قدیمہ سندھ نے قلعے کا مرمتی کام کروایا تھا مگر آج بھی اس قلعے کو مزید توجہ کی ضرورت ہے۔

موئن گیٹ کی جانب جانے والے راستے میں کتنے ہی ایسے پہاڑ ہیں جو آپ کی توجہ  اپنی جانب مبذول کرالیتے ہیں جبکہ اسی راستے کے ساتھ ہی پتھروں کی دیواریں بھی ہیں، شاید اس زمانے میں اس قلعے کو بہتر بنانے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔
آج بھی رنی کوٹ اپنی شان سے کھڑا ہے جو دنیا کے لیے کسی حیرت کدے سے کم نہیں ہے مگر اس ورثے کو سنبھالنا اوراس کی بہتری کے لیے اقدامات  کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ 

شیئر: