Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی جانب سے مذہبی آزادی پر امریکی رپورٹ مسترد

پاکستان نے گذشتہ ہفتے امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان میں مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں کے لوگ رہتے ہیں جنہیں مکمل مذہبی اور ثقافتی آزادی حاصل ہے۔
پاکستان کے وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق پاکستان کے بارے میں یہ رپورٹ غیر مصدقہ اور جانبدرانہ بیانات پر مبنی ہے۔
وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا ہے پاکستان کا آئین اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور عدلیہ  شہریوں کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے جس کی مثال حالیہ بڑے کیسز سے ملتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کے حوالے سے ایک جامع نیشل ایکشن پلان نافذ کر رہا ہے جس کے لیے 75 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اس نیشنل ایکشن پلان کے تحت قانونی اصلاحات، انصاف تک رسائی، اہم انسانی حقوق کی ترجیحات کو نافذ کرنا، انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کے معاہدوں کا نفاذ اور اس ایکشن پلان کے لیے نفاذ اور نگرانی کے طریقہ کار کو لاگو کیا جائے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ نامناسب سلوک رواں رکھا جاتا ہے فوٹو اے ایف پی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ نامناسب سلوک رواں رکھا جاتا ہے فوٹو اے ایف پی

غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رکن اور سابق چئیرپرسن زہرہ یوسف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے اس قسم کی رپورٹس مسترد ہی ہوتی ہیں تاہم اس کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ کہاں کہاں اصلاحات لائی جا سکتی ہیں اور کہاں کہاں بہتری ہو سکتی ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتی کمیشن بنانے کا کہا تھا تاہم اس پر عمل نہیں ہوا۔
زہرہ یوسف کہتی ہیں موجودہ حکومت نے تھوڑی بہت کوشش ضرور کی ہے لیکن اقلیتوں کو حقوق دینے کے لیے ملک میں کچھ بنیادی اور قانونی تبدیلیاں ضروری ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ کہتی ہیں کہ امریکی رپورٹ اپنی جگہ لیکن ہمیں امریکہ سے کسی رپورٹ کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا جاتا۔
ان کے مطابق حکومتی سطح پر اس رپورٹ کو مسترد کرنے سے بات سمجھ میں آجاتی ہیں کہ ’سچ تو بہت کڑوا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا آج تک نہ فوجی اور نہ منتخب جمہوری حکومتوں نے اقلیتوں کے مسائل حل کیے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق مذہبی اقلیتوں کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا جاتا فوٹو اے ایف پی

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ پیش کرتے ہوئے پاکستان سے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کو ’اچھی خبر‘ قرار دیا تھا۔
آسیہ بی بی کو لاہور کی ٹرائل کورٹ نے نومبر 2010 میں توہین رسالت کے مقدمے میں سزائے موت سنائی تھی تاہم آٹھ سال بعد سپریم کورٹ نے ان کے خلاف شہادتوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا تھا۔
امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ نامناسب سلوک رواں رکھا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے 77 افراد توہین مذہب کے مقدمات میں جیل میں ہیں جن میں 28 کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے اگرچہ حکومت پاکستان نے کسی کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت نہیں دی۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اقلیتیوں کو اب بھی سرکاری سکولوں اور سرکاری و نجی دفاتر میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 سول سوسائٹی کے اراکین اقلیتوں کے حقوق کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں فوٹو اے ایف پی 

رپورٹ کے مطابق عقیدے کی بنیاد پر ماہر معاشیات عاطف میاں کی تعیناتی پر عوامی ردعمل سامنے آیا اور حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لیا۔
حکومت کی جانب سے فرقہ وارانہ تنظیموں پر پابندی کے باوجود گذشتہ برس بھی مسیحیوں، اہل تشیع، ہزارہ شیعہ کمیونٹی اور جماعت احمدیہ کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت موثر کارروائی نہیں کی۔
امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت پر زور ڈالیں گے کہ مذہبی آزادی سے متعلق خدشات کو دور کرنے لیے ایک سفیر کو تعینات کیا جائے۔
یاد رہے امریکہ کی جانب سے پاکستان پر مذہبی آزادی سے متعلق اس سے قبل بھی اعتراضات سامنے آتے رہے ہیں لیکن پاکستان ان کو مسترد کرتا رہا ہے۔

شیئر: