Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات ممکن اگر ریاست ماحول فراہم کرے‘

پاکستان تحریک انصاف کی حمایتی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل نے کہا ہے کہ وہ صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹانے کے حق میں ہیں اور ان کی پارٹی کے اکثریتی ارکان بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بی این پی کے سرپرست اختر مینگل نے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک وفد چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں ان کی مدد طلب کرنے آیا تھا لیکن انہوں نے اس وفد پر واضح کر دیا کہ وہ صادق سنجرانی کے اس عہدے پر فائز رہنے کے حق میں نہیں ہیں۔
’ان سے میں نے یہ کہا کہ آپ آئے ہیں، فیصلے کرنے کا اختیار مجھے نہیں، ہماری پارٹی کو ہے۔ ان کے سامنے یہ (معاملہ) رکھیں گے۔ اگر میری ذاتی رائے پوچھی جائے گی، تو میں اس حق میں نہیں ہوں گا کہ صادق سنجرانی صاحب جو ہیں، وہ رہیں، وہ میری ایک ذاتی رائے اس لیے ہے کہ وہ جو پارٹی بنائی گئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی، یہ انہیں کے رکن ہیں اور ان کی پارٹی وہاں پر جو ہے جو انتقامی کارروائی بلوچستان یشنل پارٹی کے خلاف کر رہی ہے، تو مجھے نہیں لگتا کہ  ہماری پارٹی کے اراکین بھی ان کے حق میں ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت حکومتی اتحاد کا حصہ نہیں ہے اور صرف حکومت کے اچھے اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ بلوچستان کے سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے ان کے مطالبات جلد از جلد تسلیم کیے جائیں۔
’یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ ہم حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں، لیکن حکومت کو سپورٹ ہم نے کی ہے، ان چھ نکات کے ایشوز پر۔ اس وقت ہم آزاد بینچز پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت کوئی اچھا قدم اٹھاتی ہے، اس کا ہم نے ساتھ دیا ہے، اپوزیشن نے کوئی اچھا قدم اٹھایا بھی ہے اور اٹھائے گی بھی، ہم اس کا ساتھ دیں گے۔‘

بلوچستان کے سیاسی مسائل کے حل کے لیے حکومت کی حمایت کر رہے ہیں: سردار اختر مینگل

بجٹ کی منظوری کے لیے حکومت کو ووٹ کیوں دیا؟

اختر مینگل نے کہا کہ انہوں نے بجٹ پاس کروانے کے لیے حکومت کو ووٹ مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لیے دیا۔
’بجٹ کا اگر ووٹ نہ دیتے تو کیا بجٹ پاس نہیں ہوتا۔ اگر اس کے بدلے میں بلوچستان کے جو مسنگ پرسنز ہیں، وہ واپس آ جاتے ہیں تو میرے خیال میں یہ سودا برا نہیں ہے۔‘
’(بجٹ پاس کروانے میں مدد کے لیے) سب نکات انہوں نے مان لیے تھے۔ صرف ایک نکتے جس پر وہ آخر میں اٹکے ہوئے تھے، وہ تھا مسنگ پرسنز کا۔ اس پر ہم اٹکے ہوئے تھے، جو آخری وقت میں انہوں نے ہمیں تسلی دی کہ عنقریب مسنگ پرسنز کے واپس آنے کا سلسلہ شروع ہو گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں اختر مینگل نے بتایا کہ بجٹ پر حکومت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ایک درجن سے زائد گمشدہ افراد اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔
’پرسوں 10 آدمی واپس آئے ہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے، کل دو آئے ہیں، آج بھی اطلاع آئی ہے کہ کچھ آ رہے ہیں۔‘
اختر مینگل نے اس تاثر کی نفی کی کہ انہوں نے حکومت کو بجت پر ووٹ ترقیاتی سکیموں کے وعدے پر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سکیمیں پہلے سے ہی عوامی ترقیاتی پروگرام کا حصہ تھیں اور وہ بجٹ کے حق میں ووٹ نہ بھی دیتے تو یہ سکیمیں جاری ہو جانا تھیں۔

’پاکستانی حکام کوئی پیش بندی نہیں کر رہے‘

سردار اختر مینگل  نے کہا کہ جغرافیائی حالات بلوچستان کے معاملے پر انتہائی احتیاط سے کام لینے کے متقاضی ہیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا جس سے اندازہ ہو کہ پاکستانی حکام اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی پیش بندی کر رہے ہیں
’اگر حالات اس طرح کے رہے تو مجھے نہیں لگتا کہ آج کا بلوچستان کل وہ بلوچستان ہو گا۔ اگر حکومت نے ہوش کے ناخن لیے اور اسے سمجھ آگئی، جو ستر سالوں میں نہیں آئی۔ تو اگر انہوں نے ہوش کے ناخن لیے، تو پھر شاید بلوچستان اس ملک میں اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ ورنہ آپ کے ارد گرد جو حالات ہیں اوراگر بلوچستان کے لوگوں کو اپنے ساتھ گھسیٹتے گئے تو پھر شاید بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے۔‘

’مشرف اور آج کے بلوچستان میں زیادہ فرق نہیں‘

اختر مینگل نے کہا کہ آج کے دور کے بلوچستان اور مشرف کے بلوچستان میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔
’صرف میڈیا کا فرق ہے۔ اس وقت میڈیا بلوچستان میں تھوڑا آزاد تھا، اس وقت جمہوری دور ہے مگر میڈیا پر قدغن لگ گئی ہے۔ (میڈیا کے لوگ آج حالات کی خرابی نہیں دکھا سکتے جبکہ مشرف کے دور میں نسبتاً زیادہ آزادی کی وجہ سے حالالت کی کچھ عکاسی کرتے تھے۔)‘
’صرف میڈیا کے لوگ ہی نہیں عوام بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی اپنے بچے کو چھڑانے کے لیے کسی کیمپ میں جاتا ہے تو شدت پسند اس کو سمجھتے ہیں کہ وہ مخبر ہے، کوئی اپنی جان بچانے کے لیے شدت پسندوں کے پاس جا کر آہ و فریاد کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ شدت پسندوں سے ملا ہوا ہے، ان کا مخبر ہے۔ تو عوام اور صحافی کی بلوچستان میں کیفیت یکساں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ آج بھی بلوچستان کے بہت سے علاقے باقی ملک سے منقطع ہیں کیونکہ وہاں پر آمد و رفت کی آزادی نہیں ہے۔

بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری رہتی ہیں: تصویر اے ایف پی

اختر مینگل کے مطابق’نہ کوئی ان علاقوں میں جا سکتا ہے، نہ ہی وہاں پر ٹیلی فون کی سہولتیں ہیں، نہ ہی کوئی ڈیٹا وہاں سے مل سکتا ہے، کہ کتنے لوگ گئے ہیں، کتنے لوگ پہاڑوں میں ہیں۔ (پہاڑوں پرجانیوالے)  اگر ہزاروں میں نہیں ہوں گے تو سینکڑوں میں ہوں گے۔‘
’بڑے جو آپ کے اضلاع ہیں، تربت، کیچ جوعلاقہ ہے، اس کا تقریباً آپ کا 50-45 فیصد علاقہ اس طرح ہو گا۔ آواران میں آپ جائیں گے، تو آواران میں تقریباً 75 سے 80 فیصد علاقہ منقطع ہے، جہاں پر بغاوت چل رہی ہے۔ اسی طرح ڈیرہ بگٹی ہے، کوہلو کا علاقہ ہے، وہ علاقے جہاں پر ضلعوں کے صدر مقام ہیں، وہ تو ٹھیک ہیں، لیکن ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز سے ہٹ کر جو ہے نا، وہ علاقے ہیں، وہ اس وقت ایکسیس ایبل نہیں ہیں اس وقت۔‘

فوجی آمر مشرف کے دور میں بلوچستان کے حالات زیادہ خراب ہونا شروع ہوئے تھے: تصویر اے ایف پی

اختر مینگل نے کہا کہ پاکستانی حکام ابھی تک اپنے اس دعوے کو مضبوطی سے نہیں منوا سکے کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کی جا رہی ہے۔
’ثبوت پیش کریں کہ جی کہاں پہ ان کو مدد دی جا رہی ہے، انڈیا سے دی جا رہی ہے، افغانستان سے دی جا رہی ہے، امریکہ سے دی جا رہی ہے۔ اگر (اس دعوے میں کہ انڈیا، افغانستان اور دوسری بیرونی قوتیں بلوچ شدت پسندوں کی مدد کر رہی ہیں) تو اس کو پارلیمنٹ میں لے آئیں، ڈسکس کریں اس مسئلے پر۔ ‘
ایک سوال پر کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل کیا ہے، انہوں نے کہا: ’بلوچستان میں لوگوں کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ سرکار بالکل اب جو ہے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے، بات چیت زبان سے، ڈنڈے سے نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو اب بھی مذاکرات کی طرف لایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ریاست اس بارے میں ماحول تیار کرے۔
‘اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس سٹیج پر پہنچے ہوئے ہیں کہ ان کو لانا مشکل ہے۔ لیکن میں ابھی بھی کہوں گا ناممکن نہیں۔ اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے حکمرانوں کو ایک ماحول بنانا ہو گا۔‘

بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ


بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ کافی دیر سے حل طلب ہے: تصویر اے ایف پی

اختر مینگل نے کہا کہ ان کی تیار کردہ5،128 گمشدہ بلوچ افراد کی فہرست میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔
 

بلوچستان میں حکومت سے ناراض گروپ اکثر تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں

بلوچستان کے مسئلے کا حل کیا؟

بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے تجویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تبھی ممکن ہے جب بلوچ عوام کا وفاق پر اعتماد بحال ہو، جو ان کے مقامی وسائل میں انہیں زیادہ سے زیادہ حصہ دے کر کیا جا سکتا ہے۔
’70 سالوں میں آپ نے ہمیں اپنی آبادی کے مطابق (وسائل) دیئے، 70 سال آپ ہماری آبادی کے مطابق لیں۔ کیونکہ ہماری آبادی 3.6 تھی۔ اور 70 سالوں میں ہم لوگوں نے 3.6 پر گزارا کیا، اگلے 70 سال آپ بھی 3.6 پر گزارا کر کے دیکھیں کہ ایسے گزارا ایسا ہو سکتا ہے کہ نہیں ہو سکتا۔ جتنی ہمیں ضرورت ہو گی وہ ہم رکھیں گے، اور ہم سے جو زیادہ ہو گا وہ بالکل ہم پھر بھی وفاق کو دینے کو تیار ہیں۔ لیکن جو مالک ہے پہلے اس کو تو دیں۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے موجودہ وفاقی حکومت گذشتہ حکومت سے زیادہ بااختیار ہے۔
’پچھلی جو حکومت تھی، وہ اس سے زیادہ بے اختیار تھی، ان سے ہم نے بات کرنا چاہی، ان کو بات کرنے کا بھی اختیار نہیں تھا۔ انہوں نے بات کرنے کی جرات کی ہے، یہ صرف فرق ہے۔ (اس حکومت نے) ہم سے بات کرنے کی جرات کی ہے، وہ (گذشتہ وفاقی حکومت) تو ہم سے بات بھی کرنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ مسنگ پرسنز کا مسئلہ ہم نے اس وقت بھی اٹھایا تھا، لیکن کسی نے اس بات پر اتفاق ہی نہیں کیا کہ ہاں بلوچستان میں مسنگ پرسنز ہیں، انہوں (موجودہ پی ٹی آئی حکومت) نے ایم او یو سائن کر کے توثیق کی کہ ہاں بلوچستان میں مسنگ پرسنز ہیں۔‘

شیئر: