Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فیر میں ناں ای سمجھاں؟‘ مہوش بھٹی کا ورلڈ کپ پر کالم

مجھے زندگی میں دو باتوں کا شدید دکھ رہے گا۔ ایک وہ دن جس دن میرا سکول میں داخلہ ہوا تھا اور دوسرا، سنہ 2019 کے ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان کا 105 رنز پر ڈھیر ہو جانا۔
سکول میں داخل ہونے سے اب تک میری زندگی میں مسلسل امتحان ہی رہے ہیں اور ویسٹ انڈیز کے خلاف 105 پر آؤٹ ہونے کے بعد سے پاکستانی ٹیم مسلسل امتحانوں میں ہی پڑی ہے۔ اس وقت پاکستان کا حال ورلڈ کپ میں ایسے ہے جیسے منیر نیازی نے اپنے شعر میں کہا تھا: 
اک اور دریا کا سامنا تھا ، منیر ، مجھ کو 
میں اک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

ویسٹ انڈیز کے ساتھ میچ میں رن ریٹ برباد ہونے کے بعد سے نہ صرف ہماری ٹیم کو اپنے میچز جیتنے ضروری ہیں بلکہ کچھ دوسری ٹیموں کو بھی میچ جتوانے کا روحانی ٹھیکا ہماری ٹیم نے لیا ہوا ہے۔
مطلب بنگلہ دیش دو ٹیموں سے ہارے ، سری لنکا تین ٹیموں سے ہارے، انگلینڈ انڈیا سے ہارے، انڈیا بنگلہ دیش سے جیتے، دس میں سے چھ ٹیمیں ہاریں، انگلینڈ کا یہ رن ریٹ ہو، نیوزی لینڈ کا یہ رن ریٹ ہو، ڈالر کا 130 ریٹ ہو، تربوز دو روپے کلو ہو، دھنیا چونگے میں آئے، فواد چوہدری پورے ملک میں ایک ہی دن عید کروائیں، چاند مریخ پر چلا جائے، کائنات کہیں اور شفٹ ہو جائے، تو ہی پاکستان سیمی فائنل میں جا پائے گا۔
مطلب صرف پاکستان کی جیت سے کام چل ہی نہیں سکتا کیونکہ ہم اپنا اتنا بیڑا غرق کر چکے ہیں۔ اب ہمیں بچانے کے لیے پورے ورلڈ کپ کا سہارا چاہیے۔
اور سونے پہ سہاگہ وہ والی پلٹون ہے جو ’92 کے ورلڈ کپ میں بھی یہی ہوا تھا‘ کی رٹ لگائے رکھتی ہے اور جھوٹی امیدیں دیتی ہے۔ 92 میں بھی مرغی مرغی تھی، قیمہ قیمہ تھا، گوشت گوشت تھا۔ 92 کا موازنہ اور ہمارے ملک کے بہترین حساب کتاب والے، دن رات صبح شام یہی گنتے رہتے ہیں کہ کتنے اوورز میں کتنے سکور پر کوئی دوسری ٹیم آؤٹ ہو تو پاکستان کو موقع ملے سیمی فائنل کھیلنے کا۔
ہماری قوم اس قدر مصروف ہے آج کل نیٹ رن ریٹ نکالنے میں ۔ نائی کی دکان ہو یا تندور، لوگ بس بیٹھے ہوئے ہیں، حساب کتاب چل رہا ہے ۔ قوم کا وہی حال ہے جیسے کسی نے خوب کہا ہے: 
اک سکنٹ دی فرصت نئی
پورے جناں کم وی کوئی نہ

ہماری ٹیم کو بچانے کے لیے جس بھی ٹیم نے میچ کھیلا، ہماری حمایت کی وجہ سے اس ٹیم کا بھی بیڑا غرق ہی ہوا۔ انگلینڈ کو ہارنے کا کہا اور انڈیا کی بھرپور حمایت کی لیکن انڈیا کھیلنا ہی بھول گیا اور ہار گیا۔ پھر پاکستان نے نیوزی لینڈ کا ساتھ دیا اور نیوزی لینڈ نے اپنی تمام وکٹیں چونگے میں دے دی۔
اب تو لگنے لگا ہے ہماری حمایت ہی میں مسئلہ ہے۔ ہماری آخری امید مطلب کے نیوزی لینڈ بھی بجھ گیا۔ اس وقت اگر کوئی چیز ہماری معیشت سے بھی خراب ہے تو وہ ہمارا نیٹ رن ریٹ ہے جس کو بہتر ہونے کے لیے ایک معجزہ چاہیے۔ پاکستان کو شاید پندرہ سو بنانے پڑیں گے بنگلہ دیش کے خلاف سیمی فائنل میں جانے کے لیے ۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ’فیر میں ناں ای سمجھاں؟‘ یہ تھی پاکستان کی دوڑ ورلڈ کپ میں۔
ہر میچ کے بعد امید دی۔ ہر بار میچ ایسے جیتا کہ اب کائنات بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اور تو اور عماد وسیم بھی چل پڑے ایک میچ میں۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہم کیسے نہ امید لگاتے؟ اس امید کے مرنے پر اور اپنی پہلی اور آخری محبت، کرکٹ کے اس اختتام پر بس یہی عرض کروں گی 
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے 
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

شیئر: