Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہم گذشتہ پندرہ برس سے مستقل محاصرے میں ہیں‘

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع ہزارہ ٹاؤن کے گرد اونچی اور مضبوط دیواریں یوں تو دہشت گردی سے متاثرہ ہزارہ برادری کے تحفظ کے لیے کھڑی کی گئی ہیں لیکن یہ دیواریں ہزارہ برادری کو ان خطرات کی بھی مسلسل یاد دہانی کراتی رہتی ہیں جن کا انہیں سامنا ہے۔
جب آپ ہزارہ ٹاؤن میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے جہاں سکیورٹی فورسز کے اہلکار کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار کھڑے ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ شدت پسند اور فرقہ ورانہ گروپس وقتاً فوقتاً ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کرتے رہتے ہیں۔ اگرچہ سکیورٹی کی صورتحال پہلے سے قدرے بہتر ہے تاہم،اب بھی دہشتگردی کے بادل مکمل طور پر نہیں چھٹ سکے۔
یاد رہے کہ رواں سال  اپریل میں ایک بم دھماکے  میں 24 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
رواں سال 24 اپریل کو بم حملے میں 24 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔(فوٹو:اے ایف پی)
رواں سال اپریل میں ہونے والے بم دھماکے میں 24 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔(فوٹو:اے ایف پی)

ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن اور قانون دان سردار ساحل نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اگرچہ یہ تمام چیک پوسٹیں ہماری سکیورٹی کے لیے قائم کی گئی ہیں تاہم ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم دوسری کمیونٹیز سے بالکل کٹ کر رہ گئے ہیں۔‘
سردار ساحل جب بھی باہر نکلتے ہیں تو ایک پسٹل اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب بھی وہ باہر جاتے ہیں اپنی والدہ کے ہاتھ چومتے ہیں اور والدہ بھی ان کے ماتھے کا بوسہ لیتی ہیں اور اپنی دعاؤں کے ساتھ انہیں رخصت کرتی ہیں۔‘

سردار ساحل کی والدہ اپنی دعاؤں کے ساتھ انہیں رخصت کرتی ہیں۔ (فوٹو:روئٹرز)

ہزارہ اپنی وضع قطع سے پہچانے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں لشکر جھنگوی اور دولت اسلامیہ جیسے شدت پسند گروپس کے لیے آسان ہدف ہیں۔ شدت پسند گروہ نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی ہزارہ برادری کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
شدت پسند گروپوں کے حملوں کے بعد ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کئی کاروباری افراد نے اپنے کاروبار ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد کے علاقوں میں منتقل کر دیئے ہیں حالانکہ ان افراد کا کوئٹہ کی ہول سیل مارکیٹ میں بڑا اچھا کاروبار چل رہا تھا۔
دہشت گرد اور ٹارگٹ حملوں کے باوجود ہزارہ کمیونٹی کے افراد خوف اور دہشت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں بلکہ پُرعزم ہیں۔  ان میں سے کئی افراد اب بھی روزگار کی تلاش میں کوئٹہ میں نکلتے ہیں اور بعض وہاں اپنے کاروبار بھی چلا رہے ہیں۔

ہزارہ کمیونٹی کے افراد خوف اور دہشت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔(فوٹو:روئٹرز)

رواں ہفتے ہزارہ کمیونٹی نے ’ہزارہ کلچرل ڈے‘ بھرپور انداز میں منایا جس میں ہزارہ کی ثقافت، تاریخ، میوزک اور روایات کو اجاگر کیا گیا۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ  کا کہنا ہے کہ ہزارہ برادری کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اپنے احتجاج کو پُرامن رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شدت پسند گروپس کوشش کرتے ہیں کہ دو فرقوں کے لوگوں کو آپس میں لڑائیں۔
مارشل آرٹس کی ماہر نرگس ہزارہ کہتی ہیں کہ مقامی میڈیا ہزارہ کمیونٹی کو صرف فرقہ ورانہ حملوں کا ٹارگٹ اور دھرنا دیتے دکھاتا ہے تاہم کمیونٹی ترقی کر رہی ہے۔
نرگس گزشتہ سال ایشین گیمز میں پاکستان کی جانب سے کراٹے میں میڈل جیتنے والی پہلی کھلاڑی ہیں۔

ہزارہ کلچر ڈے میں ہزارہ کی ثقافت، تاریخ، میوزک اور روایات کو اجاگر کیا گیا۔(فوٹو:روئٹرز)

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم سب کے خواب ہیں، ہزارہ کمیونٹی کا تاثر پوری دنیا خصوصاً پاکستان میں تبدیل کرنا ہمارا مقصد ہے۔‘
ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے مارشل آرٹس کے ایکسپرٹ مبارک علی شاہ نے بتایا کہ کئی ہزارہ نوجوانوں نے فوج میں شمولیت اختیار کی ہے اور کمیونٹی تشدد کے باوجود پھلے پھولے گی۔
’ہم پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور تشدد اور دہشت گردی کے باوجود ہماری امن کی خواہش ختم نہیں ہوئی۔‘

شیئر: