Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’'ٹرمپ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ٹوئٹر صارفین کو بلاک نہیں کر سکتے‘

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ کسی صارف کو سرکاری حیثیت میں بلاک نہیں کرتے۔ تصویر: اے ایف پی
امریکہ کی فیڈرل اپیلز کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر ٹوئٹر صارفین کو بلاک نہیں کر سکتے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تین رکنی عدالتی بینچ نے ایک وفاقی جج کے گذشتہ برس کے فیصلے کی تائید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ نقطہ نظر میں اختلاف رائے رکھنے والوں سے امتیازی سلوک برت رہے ہیں جو کہ مخالف خیالات رکھنے والے افراد کے آئینی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے نجی انٹرنیٹ پلیٹ فارم پر صدر کو آئین کی پہلی ترمیم کے تحت ملنے والے اظہار رائے آزادی کے حق سے متعلق سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے معاملات سے متعلق مؤثر عوامی فورم بنایا ہے۔
ججز نے 29 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ پہلی ترمیم سوشل میڈیا اکاؤنٹ رکھنے والے ایک سرکاری عہدے دار کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ ایک سرعام ہونے والی بحث سے کسی شخص کو اختلاف رائے کی بنیاد پر نکال دے۔   
تین ججز کی یہ رولنگ ٹوئٹر استعمال کرنے والے صارفین کے ایک گروپ اور کولمبیا یونیورسٹی کے نائٹ فرسٹ امینڈمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست کے جواب میں آئی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنے سیاسی مخالفین کے خیالات کی بنا پر ان کو بلاک کر رہے ہیں۔

عدالت کا کہنا ہے کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ صدر ٹرمپ سرکاری حیثیت میں ٹوئٹر اکاؤنٹ استعمال کر رہے ہیں۔ تصویر: اے ایف پی

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف درخواست کے مدعیوں میں یونیورسٹی آف میری لینڈ کے پروفیسر، ٹیکسس کے پولیس افسر اور نیو یارک کے ایک مزاح نگار کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے انہیں اپنے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ٹویٹ کرنے پر بلاک کر دیا ہے۔
اس پر صدر ٹرمپ کا قانونی موقف یہ تھا کہ جب وہ کسی صارف کو بلاک کرتے ہیں تو وہ سرکاری حیثیت میں ایسا نہیں کر رہے ہوتے، تاہم عدالت نے ٹرمپ کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا۔
اپیلز کورٹ نے اپنی رولنگ میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے کئی ارکان نے ان کے ٹوئٹر کے استعمال کو سرکاری قرار دیا ہے۔
عدالت کا کہنا ہے ' اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ صدر ٹرمپ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی حیثیت سرکاری ہے۔ جب صدر نے خود  ایک پلیٹ فارم کا انتخاب کر کے لاکھوں صارفین کو تبادلہ خیال کا موقع فراہم کیا تو اب وہ اختلاف رائے رکھنے والوں کو اس گفتگو سے خارج نہیں کر سکتے۔'

شیئر: