Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مزاج کی ہم آہنگی: دورے کے لیے اچھی یا بری؟

چند دن پہلے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ عمران خان امریکہ کے دورے پر جا رہے ہیں، ان کا اور ٹرمپ کا مزاج ایک جیسا ہے، اللہ خیر کرے۔
وزارت عظمٰی کا حلف اٹھانے کے کچھ عرصے بعد جب عمران خان سے سوال کیا گیا کہ وہ امریکہ کے دورے پر کب جائیں گے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملیں گے کہ نہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی ڈونلڈ ٹرمپ سے نہیں ملنا چاہتے کیونکہ اگران کی کسی الٹی سیدھی بات کا انہوں نے جواب دے دیا تو گڑ بڑ ہو جائے گی۔
رواں سال مئی کے مہینے میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان اور امریکہ کے مابین ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت وزیراعظم عمران خان کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی راہ ہموار کرے گی۔
آج سنیچر کو وزیراعظم عمران خان ٹرمپ سے ملنے کے لیے امریکہ جا رہے ہیں۔ ان کا یہ دورہ یقیناً ایسے عوامل کے خاتمے کے بعد ہی ہو رہا ہے جو دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی سرد مہری کا باعث بنے ہوئے تھے۔

وزیراعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ 22 جولائی کو ہونے والی ملاقات کے دوران دو طرفہ اورعلاقائی معاملات پر سیر حاصل گفتگو کریں گے

کچھ ایسی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کا یہ خدشہ کہ ٹرمپ کی کسی بات کا انہیں کے اندازمیں جواب دینے سے گڑبڑ ہو سکتی ہے، رفع ہو گیا ہے۔
جیسا کہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا، سب سے بڑی تبدیلی تو افغان دھڑوں اور طالبان امریکہ مذاکرات کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے سے آئی ہے اور اس میں کردارادا کرنے پرنہ صرف امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد بلکہ امریکہ، چین اور روس نے مشترکہ طور پر پاکستان کی کوششوں کو سراہا ہے۔
پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے بچنے کے لیے انتہا پسندی اور منی لانڈرنگ کے خلاف بھی واضح اقدامات کیے ہیں اور وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے محض چند روز قبل کالعدم جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کو گرفتار کر لیا ہے جس کا کریڈٹ صدر ٹرمپ نے یہ کہہ کرخود لے لیا ہے کہ ایسا ان کے دو سالہ دباؤ کے نتیجے میں ہوا ہے۔
ٹرمپ کے پاکستانی نژاد سیاسی مشیر ساجد تارڑ حال ہی میں پاکستان کے دورے سے واپس گئے ہیں اور انہوں نے دونوں ملکوں کے سرابراہان کے مابین یہ ملاقات طے کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے فوجوں کی واپسی ٹرمپ کا انتخابی وعدہ ہے اور دوسرے وعدوں کی طرح اس وعدے کو بھی وہ ضرور مکمل کریں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاـ

پاکستانی نژاد ساجد تارڑ نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا (فوٹو:اے ایف پی)

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کی جانے والی دورے کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ 22 جولائی کو ہونے والی ملاقات کے دوران دو طرفہ اورعلاقائی معاملات پر سیر حاصل گفتگو کریں گے۔ علاوہ ازیں عمران خان امریکی کانگریس کے اہم اراکین، کاروباری رہنماؤں، رائے عامہ تشکیل دینے والے حلقوں اور امریکہ میں مقیم پاکستانی برادری کے افراد سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
پاکستانی حکام کے مطابق وزیراعظم عمران خان واشنگٹن میں قیام کے دوران پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ وسیع اور کثیرالجہتی تعلقات کو دی جانے والی اہمیت پرروشنی ڈالیں گے اور خطے میں امن اور سلامتی اور افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل کے لیے تعمیری شراکت کے ساتھ پاکستان کی وابستگی پر بھی زوردیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جنوبی ایشیا میں مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل پر بھی زور دیں گے۔
امریکی حکومت کی طرف سے دورے کی دی گئی تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ یہ پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات کو مضبوط کرنے اورایک طویل عرصے سے تنازعات میں گھرے خطے کے لیے امن، استحکام اور معاشی خوشحالی پر مرکوز ہوگا، دورے کے دوران صدر ٹرمپ اوروزیراعظم عمران خان انسداد دہشت گردی، دفاع، توانائی، تجارت، جنوبی ایشیا میں پر امن ماحول کی تخلیق اور دونوں ممالک کے مابین پائیدار تعلقات کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ 
جہاں پاکستان نے دورے سے قبل پراعتماد فضا تشکیل دینے کے لیے اہم اقدامات اٹھائے ہیں وہیں امریکہ نے بھی وزیراعظم عمران خان کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی بلوچ علٰیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی پر پابندی لگا کر ایک مثبت پیغام دیا ہے، جس کے بعد توقع پیدا ہو گئی ہے کہ دونوں ممالک دیرینہ تنازعات کے حل کی طرف واضح پیش رفت کریں گے۔
اس دورے کا سب سے اہم پہلو پاکستانی فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کا وزیراعظم کے ساتھ جانا ہے جس کی وجہ سے ایک تو مقامی سطح پر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ یہ وزیراعظم عمران خان کے خارجہ امور پر اختیارات کی طرف اشارہ ہے لیکن دوسری طرف اس سے یہ بات بھی ظاہر ہو رہی ہے کہ نہ صرف تمام پاکستانی قیادت امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی جہت دینے پر متفق ہے اور مشترکہ اقدامات کر رہی ہے بلکہ پاکستان اور امریکہ کے مابین فوجی تعلقات کے از سر نو شروع ہونے کے امکانات کی موجودگی بھی نظرآرہی ہے۔  
ساجد تارڑ نے گذشتہ ہفتے اردو نیوز سے گفتگو کے دوران انکشاف کیا تھا کہ اس دورے کے دوران امریکی انتظامیہ پاکستان کے لیے ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کو  بھی جزوی یا مکمل طور پر بحال کر سکتی ہے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ افغان امن عمل کے لیے پاکستان اپنا کردار ادار کرے (فوٹو:اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ افغان امن عمل کے لیے پاکستانی کردار کو تسلیم کرتے ہیں اور اسی لیے پاکستانی وزیراعظم کو دورہ امریکہ کی دعوت بھی دی گئی ہے۔
سفارتی حلقے اس بات کی بھی امید کررہے ہیں کہ اس دورے میں پاکستان امریکہ سے ایف اے ٹی ایف کی پابندیاں ختم کروانے اور بھارت سے مذاکرات کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ بھی کرے گا۔
شیخ رشید کے برعکس، کچھ دیگر سنجیدہ مبصرین عمران خان اور صدر ٹرمپ کی شخصیتوں میں پائی جانے والی مشترکہ خصوصیات کواس دورے کے لیے مثبت اشارہ قرار دے رہے ہیں اوردونوں قائدین کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ حکومتوں کی روایتی طرز کو چھوڑ کر ذاتی ہم آہنگی کے ذریعے مسائل کے حل کی طرف فوری پیش قدمی کریں۔
پاک امریکہ تعلقات پرعبور رکھنے والے ماہر معید یوسف نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ اگر دونوں رہنما اس ملاقات کے دوران ذاتی ہم آہنگی پیدا کر لیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ یہ دونوں قائدین اس وقت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جب یہ لوگوں سے براہ راست رابطے میں ہوتے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹرکے ڈپٹی ڈائریکٹر اور جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر مائیکل کگلمین نے اردونیوز کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کی ملاقات بذات خود ایک بہت بڑی اور غیر معمولی تبدیلی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ کی توجہ افغان مصالحت اور انسداد دہشت گردی پر زیادہ ہو گی۔
’پاکستان کئی معاملات پر بات کرنا چاہے گا، جن میں فوجی امداد کی بحالی  بھی شامل ہے۔ تاہم ٹرمپ کی بہت زیادہ توجہ کئی اہم معاملات ۔۔۔افغان مصالحت اور انسداد دہشت گردی پرہو گی۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ امریکہ ابھی فوجی امداد کی بحالی کے لیے تیار ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ پاک انڈیا مذاکرات کی بحالی کے لیے مدد کا اظہار کرسکتے ہیں تاہم وہ اس میں ثالثی کا کردار ادا کرنا نہیں چاہیں گے۔

امریکہ کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں فوجی امداد بحال ہونے کا بھی امکان ہے (فوٹو:اے ایف پی)

امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیراور پیپلز پارٹی کی سینیئررہنما شیری رحمان نے فارن پالیسی کے تازہ شمارے میں بیان کیا ہے کہ اس ملاقات کے دوران امریکہ انسداد دہشت گردی اور افغان طالبان کو تشدد کے خاتمے پر مجبور کرنے پر زور دے گا۔ جبکہ پاکستان کی کوشش ہوگی کہ اس کا کردار افغانستان کے مسئلے سے ہٹ کر دو طرفہ وسیع تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے، لیکن زیادہ توقعات قائم کرنا عبث ہو گا کیونکہ امریکہ نے ماضی میں وعدوں کے باوجود نہ توپاکستان میں ہونیوالے فوجی آپریشنز کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی میں مدد کی اور نہ ہی تعمیرنو کے لیے خصوصی اکنامک زونز بنانے میں۔  
لیکن اس کے باوجود حکومتی حلقے امید کر رہے ہیں کہ اس دورے کے دوران پاکستان امریکہ کے ساتھ معاشی، تجارتی اور توانائی کے شعبوں میں طویل المعیاد شراکت داری کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
 اس بات کا اشارہ ساجد تارڑ بھی دیتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تجارتی روابط کے فروغ میں پیش رفت کرے کیونکہ اس وقت انڈیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی محاذ پر تناؤ کی کیفیت ہے اور پاکستان اپنی برآمدات کے ذریعے امریکہ میں انڈین مصنوعات کی کمی پوری کر سکتا ہے۔
 دونوں ملکوں کے رہنماؤں کے مزاج میں مطابقت اس حوالے سے بھی اہم ہو سکتی ہے کہ دونوں ہی بڑے اقدامات اٹھانے کے عادی ہیں۔ جیسے صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی سمت عطا کی ہے کہ ماضی قریب میں کسی امریکی صدر نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ شمالی کوریا کے کسی سربراہ سے ملے گا، اور ٹرمپ نے یہ کر دکھایا۔
تو کیا بعید ہے کہ جب امریکی صدر اور پاکستانی وزیراعظم مل بیٹھیں تو کوئی انہونی کر ڈالیں۔  
 
 

شیئر: