Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کو زبردست شکست، سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ناکام

صادق سنجرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے پہلے چیئرمین ہیں، تصویر: وزیراعظم آفس ٹوئٹر
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل آج جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں مکمل ہو گیا۔
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے سینیٹ کے خصوصی اجلاس کی صدارت پریذائیڈنگ افسر ایم کیو ایم کے سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کی جن کا تقرر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کیا تھا۔
سینیٹ کے خصوصی اجلاس میں ایوان کے کل 104 ارکان میں سے 100 ارکان موجود تھے۔ پریذائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے رائے شماری کے نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی مخالفت میں 50 ووٹ پڑے، پانچ ووٹ مسترد ہوئے جبکہ چار ارکان ایوان میں موجود نہیں تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن لیڈر راجا ظفرالحق نے چیئرمین صادق سنجرانی کو ہٹانے کی قرارداد پیش کی جس کی حزب اختلاف کے 64 ارکان نے کھڑے ہو کر حمایت کی۔ اس طرح نتیجے کو دیکھا جائے تو اپوزیشن کے کئی ارکان نے بھی صادق سنجرانی کے خلاف ووٹ نہیں ڈالا۔ 

نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے امیدوار تھے، تصویر: ٹوئٹر

پریذائیڈنگ افسر نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ صادق سنجرانی کے خلاف 50 ووٹ پڑے ہیں جبکہ انہیں ہٹانے کے لیے 53 ووٹ درکار تھے لہٰذا صادق سنجرانی بدستور چیئرمین سینیٹ کے عہدے پر برقرار رہیں گے۔ ووٹنگ کے نتیجے کا اعلان ہوتے ہی حکومتی اتحاد کے سینیٹرز نے چیئرمین صادق سنجرانی اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔
دوسری جانب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کو ہٹانے کے لیے حکومت کی تحریک عدم اعتماد بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔ سلیم مانڈوی والا کے خلاف کل 32 ووٹ پڑے جو مطلوبہ ووٹوں سے 21 ووٹ کم تھے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں صرف ایک ووٹ مسترد ہوا۔ اس طرح چیئرمین سینیٹ کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی اپنا عہدہ بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپوزیشن اور حکومتی اتحادیوں کی جانب سے سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے خلاف جمع کرائی گئی ریکوزیشن پرآج ایوان بالا کا اجلاس طلب کیا تھا۔

اپوزیشن لیڈر راجا ظفرالحق نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی، تصویر: اے ایف پی

سینیٹ کا خصوصی اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کو ہٹانے کی قرارداد پر رائے شماری کے لیے بلایا گیا۔ 
پریذائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے ارکان کو تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے طریقہ کار اور قواعد سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ووٹنگ کا عمل خفیہ بیلٹنگ کے ذریعے ہو گا، کسی رکن کو اپنا بیلٹ پیپر دکھانے یا اس کی تصویر لینے کی اجازت نہیں ہو گی۔
سینیٹ کے اس خصوصی اجلاس میں ایوان کے کل 104 میں سے 100 ارکان شریک ہیں۔ جماعت اسلامی نے تحریک عدم اعتماد سے لاتعلق رہنے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس کے دونوں ارکان سراج الحق اور مشتاق احمد خان خصوصی اجلاس میں شریک نہیں ہیں۔
مسلم لیگ ن کے چودھری تنویر بیرون ملک ہونے کی وجہ سے اجلاس سے غیر حاضر ہیں جبکہ اسحاق ڈار نے ابھی تک سینیٹ کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف بھی حکومت کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی، تصویر: ٹوئٹر

تحریک عدم اعتماد ، طریقہ کار

سینیٹ کے چئیرمین اور ڈپٹی چیئرمین کو ہٹانے کا طریقہ کار رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس ان سینیٹ 2012 میں طے کیا گیا ہے جس کے تحت سینیٹ کی کل تعداد کے ایک چوتھائی ارکان تحریک عدم اعتماد جمع کرا سکتے ہیں جس کے بعد سیکرٹری تمام ارکان کو نوٹس جاری کرتے ہیں۔
ووٹنگ کے لیے بلائے گئے اجلاس کی صدارت چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نہیں کرتے  بلکہ صدر مملکت کے نامزد کردہ پریذائیڈنگ افسر صدارت اور پورے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔
اجلاس کے آغاز پر پریذائیڈنگ افسر عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا کہتے ہیں۔ تحریک پیش ہونے کے بعد ارکان کو اس کے حق میں کھڑے ہونے کا کہا جاتا ہے اور اگر کل ایوان کا چوتھائی حصہ ارکان کھڑے نہ ہوں تو تحریک مسترد کر دی جاتی ہے اور اگر اس سے زیادہ ارکان کھڑے ہو جائیں تو عدم اعتماد کی قرار داد پیش کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
قرار داد پر ایک رکن کو 15 منٹس سے زیادہ بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین جس کے خلاف بھی عدم اعتماد کی قرار داد پیش ہو اسے 30 منٹ تک بولنے کا موقع دیا جاتا ہے۔
قرار داد پر ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوتی ہے اور چیئرمین کی قسمت کا فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے۔
چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نئے چیئرمین کا انتخاب آئین میں درج طریقہ کار کے مطابق عمل میں لایا جاتا ہے۔

اپوزیشن کو خطرہ کیا؟

نمبرز گیم کو دیکھا جائے تو اپوزیشن کے پاس چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے مطلوبہ تعداد موجود ہے لیکن دوسری جانب حکومت بالخصوص چیئرمین سینیٹ نے خود اپوزیشن سینیٹرز سے رابطے کر کے انھیں اپنی حمایت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔
چیئرمین سینیٹ کی جانب سے دیے گئے عشائیے میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے علاوہ مسلم لیگ ن کے دو سینیٹرز کلثوم پروین اور دلاور خان نے شرکت کر کے اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑ ڈال دی۔
موجودہ صورتحال میں خفیہ ووٹنگ بھی اپوزیشن کے لیے نقصان دہ سمجھی جا رہی ہے۔ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر مصدق ملک نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں دعویٰ کیا کہ ووٹنگ کے دوران اپوزیشن کے 63 سینیٹرز اجلاس میں موجود ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کے حالیہ اجلاسوں میں 53 سے 60 سینیٹرز شریک ہوتے رہے ہیں۔
مصدق ملک نے کہا کہ اپوزیشن کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ سینیٹرز اور سیاستدانوں پر دباؤ ڈالنا اب اس ملک کی روایت بن چکی ہے اس لیے اب دباؤ بھی کام نہیں کرے گا۔

حکومتی تیاریاں

دوسری جانب حکمران اتحاد نے بھی عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے اپنے اتحادیوں سمیت تمام سینیٹرز سے فرداً فرداً رابطے کیے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ کے قریبی ساتھی سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ انھوں نے تمام سینیٹرز سے کہا ہے کہ اپوزیشن اپنی انا کی تسکین کے لیے ہاؤس آف فیڈریشن کو اکھاڑا بنا رہی ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو انھوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے تاہم کس کس نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے وہ ابھی نہیں بتائیں گے۔

اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا تھا، تصویر: اے ایف پی

تحریک عدم اعتماد کیوں؟

اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس نے جون میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدام اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کا موقف تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے وقت حالات مختلف تھے اور اب جمہوری قوتوں کے اتحاد کا اظہار چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے سے ہی ممکن ہے جس کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی سمیت سینیٹ میں دیگر اپوزیشن ارکان نے 9 جولائی کو چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کروائی تھی۔
جواباً حکمران جماعت تحریک انصاف اور اتحادیوں نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کو ہٹانے کے لیے 12 جولائی کو عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی تھی۔

صادق سنجرانی کا انتخاب

صادق سنجرانی 3 مارچ 2018 کو بلوچستان سے آزاد حیثیت سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے راجا ظفرالحق کو 11 ووٹوں سے شکست دی تھی۔ انہوں نے 57 جبکہ راجا ظفرالحق نے 46 ووٹ حاصل کیے تھے۔ صادق سنجرانی نے 12 مارچ 2018 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

شیئر: