Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حامد میر کا تجزیہ: ’سب کے ساتھ واردات ہوگئی‘

ہاہا، ہاہا ۔۔ سوری، میں نے ہنسنا شروع کر دیا۔ اصل میں کچھ حالات ہی ایسے ہیں کہ پوری قوم ہنس رہی ہے۔
اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کا جو حشر ہوا ہے اس پر تو خود صادق سنجرانی بھی ہنس رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری بہت زیادہ پراعتماد تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ ہمارے سینیٹرز کو بھاری رقوم کی آفرز کی گئی ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کے سینیٹرز رقم بھی کھا جائیں گے اور ووٹ بھی اپنے ہی امیدوار کو دیں گے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بہت غلط اپروچ تھی۔ بلاول کو بتانا چاہیے تھا کہ کس نے کون سے سینیٹر کو کیا آفر کی۔ اور ان کو یہ بالکل بھی نہیں کہنا چاہیے تھا کہ آپ ان سے پیسے بھی کھا جائیں اور ووٹ بھی ہمیں دیں۔ ایسے تو نہیں ہوتا، جو پیسے دیتا ہے اس کو ووٹ لینا بھی آتا ہے۔
اگر کسی نے پیسے دیے ہیں تو اس کو ووٹ لینا آتا تھا، اس نے آپ کا ووٹ لے لیا، آپ کا ووٹ توڑ لیا۔ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ہوگئی ہے، بہت پریشر تھا۔ یہ ہو گیا، وہ ہو گیا۔ ہو سکتا ہے ہوا ہو۔ لیکن ہمیں یہ بھی تو بتائیں نا، آپ کو بھی تو پتہ تھا کہ آپ کی جماعت کے کون کون سے سینیٹرز وہ صادق سنجرانی کے لیے خاموشی کے ساتھ مہم چلا رہے ہیں۔ اور ایسے ہی سینیٹرز مسلم لیگ ن کی صفوں میں بھی تھے۔
مسلم لیگ ن کی صفوں میں سے جو سینیٹرز صادق سنجرانی کے لیے مہم چلا رہے تھے ان کا صرف مجھے یا دو تین صحافیوں کو ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو پتہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو عام زبان میں لوٹا کہا جاتا ہے۔
یہ لوٹے سنہ 2002 میں کسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے۔ 2008 میں کسی پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر بن گئے۔ 2013 میں کسی اور کے سینیٹر بن گئے اور 2018 میں ایک نئی انقلابی جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر بن گئے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ انہوں نے کس قسم کے لوگوں کو سینیٹ کے  ٹکٹ دیے تھے۔ تو جس قسم کے لوگوں کو آپ نے سینیٹ کے ٹکٹ دیے تھے اسی قسم کا آپ کو نتیجہ ملا ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کا جو حشر ہوا ہے اس پر تو خود صادق سنجرانی بھی ہنس رہے ہیں۔

64 لوگوں نے سینیٹ میں کھڑے ہو کر کہا کہ دیکھیں جی ہم اصول پر کھڑے ہیں اور ہم جناب ایک دوسرے کے ساتھ کبھی دھوکہ نہیں کریں گے۔ لیکن جب وہ پولنگ بوتھ میں گئے، سیکرٹ بیلٹ تھا تو وہاں جا کر 14 سینیٹرز کا اچانک ضمیر جاگ گیا۔
ہاہا ،، ہاہا ۔۔ ضمیر جاگ گیا۔ تو جب ضمیر جاگتا ہے تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے نا۔
اللہ مغفرت کرے، احتشام ضمیر صاحب اس دنیا سے چلے گئے ہیں لیکن جن کا ضمیر جاگا ہے تو لگتا ہے کہ یہ صادق سنجرانی کی قاتل مسکراہٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔ اب یہ شکار تو ہوگئے ہیں لیکن پتہ نہیں کون شکار ہے۔ وہ نامعلوم ہیں۔
پاکستان میں اکثر بڑی وارداتیں نامعلوم لوگ کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہوا ہے، یہ ایک انوکھی واردات ہوئی ہے اور اس کے ذمہ دار ابھی تک نامعلوم ہیں۔ کچھ کا ہمیں پتہ ہے، کچھ کا ہمیں نہیں پتہ۔

بلاول کو بتانا چاہیے تھا کہ کس نے کون سے سینیٹر کو کیا آفر کی۔

جو بھی ہے لیکن جو نامعلوم افراد ہیں ان کو واردات کرنے کے لیے ان کی پارٹی نے ٹکٹ دیا اور یہ سینیٹر بنے۔ اب پارٹیوں کی قیادت جن میں بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف اور مریم نواز کو صرف ان سینیٹرز کا محاسبہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہیے۔ اپنی جماعتوں میں جمہوریت لے کر آئیں۔ جب آپ اپنی جماعتوں میں جمہوریت لے کر آئیں گے، اپنی جماعتوں میں ایک ایسا معیار قائم کریں گے کہ سینیٹ کا ٹکٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں کا ٹکٹ اس شخص کو ملے گا جو پارٹی کا نظریاتی کارکن ہے، جو پارٹی کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہا ہے اور جس نے ہمیشہ پارٹی کے لیے قربانی دی ہے۔ 
اگر آپ اپنے کارکنوں کو ٹکٹ دیں گے تو وہ نتیجہ نہیں ملے گا جو یکم اگست کو سینیٹ میں ملا ہے۔ آپ سب کے ساتھ واردات ہوگئی ہے۔
ساری دنیا آپ پر ہنس رہی ہے اور آپ بھی بند کمروں میں خود پر ہنس رہے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے، کسی ایک پارٹی کے لیے شرم کا مقام نہیں۔ یہ شرم کا مقام اس لیے آیا ہے کہ آپ نے پارٹیوں کے اندر جمہوریت قائم نہیں کی۔
جب تک آپ اپنی پارٹیوں کے اندر جمہوریت قائم نہیں کریں گے تو ۔۔۔ ہاہا ۔۔۔ دنیا آپ ہنستی رہے گی۔

شیئر: