Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جی سیون اجلاس: کیا امریکہ، چین تجارت پر بحث ہوئی؟

امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ ایک مشکل موڑ پر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ چین سے ان کی تجارتی جنگ جی سیون اجلاس میں اختلافات کا باعث بن رہی ہے تاہم انہوں نے اشارہ دیا کہ وہ اس جنگ کو فی الحال مزید نہیں بڑھائیں گے۔  
صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس مسئلے پر جی سیون اجلاس میں کوئی بحث نہیں ہو رہی۔ 
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جی سیون میں شامل یورپی ممالک امریکہ اور چین کے درمیان جاری ’تجارتی جنگ‘ پر خدشات ظاہر کرتے رہے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس سے عالمی معیثت پر منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ جی سیون دنیا کی ترقی یافتہ معیشت رکھنے والے سات ممالک کا گروپ ہے، جس میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ جی سیون ممالک کا اجلاس ہر سال منعقد ہوتا ہے اور اس بار فرانس اس کی میزبانی کر رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس میں جاری اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا، ’میرے خیال میں یہ لوگ (جی سیون ممالک) اس تجارتی جنگ کی قدر کرتے ہیں۔ یہ تو ہونا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ دوسرے ممالک کے رہنماؤں نے امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تناؤ پر تنقید کی ہے یا نہیں، تو ٹرمپ کا کہنا تھا، ’نہیں، ایسا بلکل نہیں ہے۔ میں نے ایسا نہیں سنا۔‘

جی سیون میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ فی الوقت چین کے ساتھ تجارتی جنگ کو مزید بڑھنے سے روکیں گے۔
امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ سے متعلق برطانوی وزیراعظم بورس جونسن نے بھی اتوار کو صدر ٹرمپ سے ناشتے کے دوران کہا تھا کہ ان کو ’ٹیرف ہی پسند نہیں‘ اور وہ چاہتے ہیں کہ ’پرامن تجارت ہو۔‘
امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ ایک مشکل موڑ پر آ کر رکی ہے۔
جمعہ کو صدر ٹرمپ نے چین کی جانب سے امریکی سامان پر ٹیکس کو بڑھانے کے بدلے میں 550 ارب ڈالر لاگت کی چینی درآمدات پر مزید ٹیکس عائد کر دیے۔
تاہم دو دن بعد، اتوار کو ٹرمپ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ اپنے فیصلے میں نرمی برتیں گے، کیونکہ انہیں بھی خدشہ ہے کہ کہیں یہ تجارتی جنگ بڑھ نہ جائے۔

جی سیون میں شامل یورپی ممالک نے چین امریکہ تجارتی جنگ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

صدر ٹرمپ نے کہا کہ فوری طور پر ہنگامی صورتحال کے اس اعلان سے گریز کریں گے جس کے تحت وہ امریکی کپمنیوں کو چین سے نکلنے کا حکم دے سکتے ہیں۔
’میں چاہوں تو کر سکتا ہوں کیونکہ میرے پاس اختیار ہے۔ میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر سکتا ہوں۔ لیکن ایسا کرنے کا میرا ابھی کوئی ارادہ نہیں۔‘
اپنے رویے میں نرمی لانے کے فیصلے سے قبل صدر ٹرمپ نے جمعے کو ٹوئٹر پر لکھا تھا، ’میں حکم دیتا ہوں کہ چین کا متبادل تلاش کیا جائے۔‘
لیکن اتوار کے فیصلے کے باوجود صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چین کی وجہ سے امریکہ کو اب تک سالانہ تقریباً ایک کھرب ڈالر کا نقصان ہوا ہے کیونکہ چین دانشورانہ املاک چوری کرتا ہے۔ ’۔۔۔ یہ کئی طرح سے ہنگامی صورتحال ہے۔‘
امریکی صدر کا ماننا ہے کہ چین امریکہ مطالبات کے آگے ہتھیار ڈال دے گا تاکہ تجارتی تعلقات میں بہتری آئے۔
’ہماری بات چیت جاری ہے۔ میرے خیال میں مجھ سے زیادہ ان کی خواہش ہے کہ ڈیل ہو جائے۔‘

شیئر: