Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان اور سندھی وڈیروں کا کندھا

دسمبر 2018 میں بھی سندھ میں تبدیلی کے اشارے ملے تھے، تصویر: گورنر ہاؤس
چرچا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان  نے سندھ کی سیاست میں مداخلت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سندھ حکومت میں تبدیلی ناگزیر بتائی جا رہی ہے۔ 
گذشتہ سال دسمبر میں منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس سے متعلق جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد بھی اس طرح کے اشارے ملے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کی سردار علی گوہر مہر سے فون پر بات چیت کے بعد حکمران جماعت کے اتحادی متحدہ قومی موومنٹ اور گرینڈ نیشنل الائنس کے رہنما گھوٹکی کے مہروں کے پاس جمع ہوئے تھے۔ اس میٹنگ میں وزیراعظم کو بھی شرکت کرنا تھی۔ 
لیکن  انہوں نے بعض مصروفیات کی بنا پر اچانک اپنا گھوٹکی کا دورہ ملتوی کر دیا اور اس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو سندھ بھیج دیا۔

گورنر عمران اسماعیل سندھ میں وزیراعظم کی نمائندگی کرتے ہیں، تصویر: وزیراعظم ہاؤس

انہوں نے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے سندھ کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ پچھلی بار کوشش اس وجہ سے بھی ادھوری رہی کہ گرینڈ نیشنل الائنس، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان وزارت اعلیٰ اور وزارتوں کی تقسیم کا معاملہ طے نہیں ہو سکا تھا۔ علاوہ ازیں اسلام آباد میں بھی بعض سرگرمیاں ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔
ایک بار پھر یہ ذمہ داری علی گوہر مہر کو سونپی گئی ہے جو حال ہی میں اپنے بھتیجے کی ضمنی انتخاب میں ہار کے بعد کراچی پہنچے ہیں۔ سندھ میں جی ڈی اے کے رکن سندھ اسمبلی علی گوہر مہر نے گذشتہ تین روز کے دوران  پیپلز پارٹی کے ’ناراض‘ اراکین سندھ اسمبلی  نادر علی مگسی، نواب غیبی سردار خان چانڈیو، جام مدد علی اور سپییکر سندھ اسمبلی سراج درانی سے ملاقاتیں کیں۔

سندھ کی صورتحال پر پی ٹی آئی اور گرینڈ نیشنل الائنس رابطے میں ہیں، تصویر: گورنر ہاؤس

بظاہر یہ ملاقاتیں مزاج پرسی لگ رہی تھیں لیکن یہ سب سیاسی تھیں۔ ان ملاقاتوں سے سید مراد علی شاہ کی حکومت کو فکر لاحق ہو گئی ہے اور جن ارکان اسمبلی اور وزرا پر فارورڈ بلاک بنانے کا شبہ ہے ان سے وزیراعلیٰ نے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔
عمران خان  نے وزیراعظم بننے کے بعد کراچی، گھوٹکی اور تھرپارکر کے علاوہ کسی جگہ کا دورہ نہیں کیا۔ تھرپارکر کا دورہ انہوں نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی فرمائش پر کیا تھا، کیونکہ شاہ محمود قریشی تھر سے انتخاب لڑے تھے۔ 
اگرچہ وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے، تاہم انہوں نے 90 ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے تھے۔ حلقے کے لوگوں کا مطالبہ تھا کہ وہ تھر کا دورہ کریں۔ 
الیکشن سے پہلے عمران خان نے لاڑکانہ، گھوٹکی، عمرکوٹ، حیدرآباد کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کے مخالفین کو اکٹھا کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
انہوں نے ان روایتی سیاسی وڈیروں سے رابطہ کیا تھا جو کسی وجہ سے پیپلزپارٹی اور اقتدار سے باہر رہ گئے تھے۔ ان میں ممتاز بھٹو اور لاڑکانہ کا انڑ خاندان شامل تھے۔ 

وزیراعظم نے سندھ میں صرف کراچی، گھوٹکی اور تھرپارکر کا دورہ کیا، تصویر: پی ٹی آئی

عمران خان نوجوان نسل یا اپر مڈل کلاس جو کہ حالیہ برسوں میں ابھری ہے اور سیاست کرنا چاہ رہی ہے، کے لیے کوشش جاری کر سکتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپر مڈل کلاس کی تعریف میں آتے ہیں۔ یہ لوگ روایتی وڈیروں کے مخالف ہیں۔ نواز لیگ اور فنکشنل لیگ اس کلاس کی حمایت حاصل نہیں کر پائی ہیں اور قوم پرست تو یہاں تک نہ پہنچے ہیں اور نہ ہی انتخابی سیاست کرنا چاہ رہے ہیں۔
اگر عمران خان اپنی حکمت عملی درست رکھیں تو یہ وہ جگہ ہے جو تحریک انصاف کو مل سکتی ہے۔

عمران خان بھی نواز لیگ کی طرح سندھ میں وڈیروں پر بھروسہ کر رہے ہیں، تصویر: گورنر ہاؤس

لیکن عمران خان ابھی بھی نچلی سطح پر حمایت تلاش کرنے کے بجائے روایتی وڈیروں کا سہارا لے رہے ہیں، یہ وہی طریقہ ہے جو نواز لیگ بھی اختیار کرتی رہی ہے۔
یہ وڈیرے اس صورت میں ساتھ رہتے ہیں جب تک اقتدار ہے۔ اس کے بعد پارٹی کا نام نشان وہاں نہیں رہتا۔ اس لیے عمران خان کو چاہیے کہ اگر وہ حقیقی طور پر پارٹی کو مضبوط کرنا اور پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں اسے شکست دینا چاہتے ہیں تو وڈیروں کا کندھا تلاش کرنے کے بجائے عوام پر بھروسہ کریں اور انہیں یقین دلائیں کہ وہ ان کے لیے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو دیگر لوگوں نے نہیں کیا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں