Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کب تک کھلے آسمان تلے سونا پڑے گا‘

پانچ بچوں کے باپ شمریز اختر سے تو آج بولا بھی نہیں جا رہا۔ بار بار اپنے زلزلے سے متاثر ہونے والے مکان کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے کہ ’یہ تو رہنے بھی قابل نہیں رہا۔ جانوروں کا کمرہ گرنے سے جانور بھی متاثر ہوئے۔ شکر ہے جانی نقصان نہیں ہوا۔ ‘
موہڑہ سانگ کے تقریباً ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔ زلزلے سے جہاں کروڑوں روپے کی مالیت سے بننے والی کوٹھیاں کھنڈر بن گئی ہیں وہیں غریبوں کے گزارہ لائق گھر بھی اب رہنے کے قابل نہیں رہے۔ 
شمریز اختر تین کمروں کے مکان میں اپنی بوڑھی ماں، بیوی بچوں اور بھائی بھابھی کے ساتھ رہتا ہے اور دونوں بھائی محنت مزدوری کرکے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
زلزلے سے تینوں کمرے دراڑیں پڑنے کے بعد رہائش کے قابل نہیں رہے بلکہ دو کمروں کے تو دروازے بھی نہیں کھل رہے۔ شمریز اختر کو خدشہ ہے کہ آفٹر شاکس سے مکان گرا تو گھر کا سارا سامان بھی ضائع ہو جائے گا۔ 

زلزلے سے کم از کم 26 افراد ہلاک اور تین سو سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں: فوٹو اے ایف پی

شمریز نے اپنے خاندان کے ساتھ رات بارش میں کھلے آسمان تلے گزاری ہے۔ شمریز اختر کہتے ہیں کہ ’اب پتہ نہیں کب تک کھلے آسمان تلے سونا پڑے گا۔ ٹینٹ مل جائے گا لیکن جوان بچیوں کے ساتھ ٹینٹ میں رہنا بہت مشکل ہوگا۔‘ 
شمریز اختر کی بوڑھی ماں حاکمہ بی بی کو بھی اپنی اولاد کا غم کھائے جا رہا ہے۔
حاکمہ بی بی کے بقول’ہمارا تو سب کچھ ہی کھجل خراب ہوگیا۔ پتہ نہیں کب دوبارہ مکان بنے گا۔ ہمارے تو جانور بھی رل جائیں گے۔‘
شمریز اختر اور ان کے ساتھ والی تین منزلہ کوٹھی کے باسیوں کا سماجی رتبہ آج ایک جیسا ہے کیونکہ کوٹھی میں پڑی دراڑوں نے اس کے باسیوں کو در بدر کر دیا ہے۔ وہ اپنا سامان ٹرالی میں ڈال کر اپنے رشتہ داروں کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ 
اسی گاؤں کا مروت حسین اور اس کی بیوی سکینہ بی بی اپنے چھ بچوں کے ساتھ دو کمروں کے مکان میں رہتے ہیں۔ مروت حسین نے دو گدھے رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ بھٹے پر مزدوری کرتا ہے۔
مروت کی بیوی سکینہ سے بات کرنا چاہی تو انھوں نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ وہ اس لیے نہیں رو رہی تھیں کہ اس کا مکان متاثر ہوا ہے بلکہ وہ شکر گزار تھیں کہ ان کے سر کا تاج اور بچے محفوظ رہے۔ 
سکینہ بی بی کے مطابق ’اگر میرے میاں کی محنت سے گھر نہ چلے تو میں لوگوں کے گھروں میں برتن دھو کر ان کا ہاتھ بٹاتی ہوں اور کبھی اپنے میاں سے گلہ نہیں کیا۔‘ 
سکینہ بی بی کہتی ہیں کہ ’بھوکے سو جاتے ہیں لیکن کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ (روتے ہوئے) لیکن شاید اب ہمیں اپنے کسی بھائی کی مدد درکار ہوگی کیونکہ ہمیں نیا مکان تو بنانا ہوگا۔

پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں اس سے پہلے 2005 میں آنے والے زلزے سے وسیع علاقے میں تباہی ہوئی تھح: فوٹو اے ایف پی

موہڑہ ساہنگ میں بلند و بالا کوٹھیاں دور سے دیکھیں تو سلامت نظر آتی ہیں لیکن قریب جا کر دیکھیں تو اتنی دراڑیں ہیں کہ باسی تالے لگا کر نقل مکانی کرچکے ہیں۔ کئی گھروں کی درمیانی دیواریں گرنے سے دو دو تین تین مکانات کے صحن ایک ساتھ مل گئے ہیں۔ 
یاد رہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں آنے والے زلزلے نے سب سے زیادہ اس کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میر پور کو متاثر کیا ہے۔ جہاں مجموعی طور پر پچاس فیصد مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ متعدد دیہات کے تقریبا تمام مکانات زلزلے کے بعد رہائش کے قابل نہیں رہے۔ 
میر پور شہر سے براستہ کھڑی اور سموال شریف متاثر علاقوں کی طرف سفر شروع کریں تو ابتدا میں جگہ جگہ دیواریں گری ہوئی نظر آتی ہیں لیکن جونہی آگے بڑھتے جائیں تباہی اپنا خوفناک چہرہ دکھاتی نظر آتی ہے۔ سب سے زیادہ تباہی موہڑہ ساہنگ میں ہوئی ہے۔ 
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: