Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چونیاں سے دو بچے لاپتہ: ’وہ سکول گئے مگر واپس نہیں آئے‘

اسامہ اور عدنان نواحی قصبہ شامکوٹ میں واقع نجی سکول میں نہم جماعت کے طالب علم ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے چونیاں میں دو روز قبل لاپتہ ہونے والے دو بچوں کا تاحال سراغ نہیں مل سکا ہے۔
نہم جماعت کے طالبعلم اسامہ اور عدنان سکول کے لیے گھر سے نکلے تھے اور واپس نہیں لوٹے۔ پولیس نے دونوں بچوں کے اغوا کا مقدمہ درج کر لیا ہے، مقدمہ اسامہ کے والد محمد سلیم کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے محمد سلیم نے بتایا کہ ان کا بیٹا اسامہ سلیم اور بھتیجا عدنان جمیل 23 ستمبر کو گھر سے سکول کے لیے روانہ ہوئے لیکن واپس نہیں آئے۔ سکول کا وقت گزرنے کے بعد جب وہ گھر نہیں پہنچے تو ان کی تلاش شروع کی جس کے بعد پتہ چلا کہ وہ سکول ہی نہیں گئے۔‘

قصور پولیس کے ضلعی ترجمان کے مطابق واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مقدمہ درج کیا گیا۔ 

محمد سلیم نے مزید بتایا کہ ’جب سکول وین کے ڈرائیور سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ دونوں صبح بس سٹاپ پر موجود نہیں تھے اس لیے وہ انہیں سکول لے کر نہیں گیا۔‘
یاد رہے کہ قصور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کی وجہ سے ایک بار پھر خبروں میں ہے، گذشتہ دنوں چونیاں میں زیادتی کے بعد قتل کیے جانے والے تین بچوں کی لاشیں ملی تھیں۔
اسامہ اور عدنان نواحی قصبہ شامکوٹ میں واقع ایک نجی سکول میں نہم جماعت کے طالب علم ہیں۔
محمد سلیم نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ان کے شکوک شبہات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ’یہاں  لوگ ڈرے ہوئے ہیں ابھی پچھلے ہفتے چونیاں میں اتنے بڑے واقعات ہوئے ہمیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں، پولیس ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔‘

قصور میں زینب اور دیگر کمسن بچیوں سے جنسی زیادتی اور قتل کے واقعات کے بعد سخت قانون سازی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں (فوٹو:اے ایف پی)

دوسری جانب قصور پولیس کے ضلعی ترجمان کے مطابق واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے مقدمہ درج کیا، سکول انتظامیہ اور دیگر طالب علموں سے بھی پوچھ گچھ جاری ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بظاہر اس واقعے کا تعلق چونیاں میں قتل کیے جانے تین بچوں سے نہیں جوڑا جا سکتا، دونوں واقعات میں بظاہر کوئی ایسی مماثلت نہیں۔‘
واضح رہے کہ ستمبر کے تیسرے ہفتے میں قصور کی تحصیل چونیاں سے تین کم عمر بچوں کی لاشیں برآمد ہونے کے بعد قصور کے ڈی پی او سمیت تمام متعلقہ پولیس افسران کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔
پولیس کو ابھی تک ان مقدمات میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: