Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اب اتنا نمک مرچ بھی نہ لگایا کرو!

وہ چیز عموما تجسس کا باعث بنتی ہے جس کے بارے میں معلومات نہ ہوں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
سعودی عرب میں ’ذوق العام‘ یعنی لباس و اخلاقیات سے متعلق ضوابط پر عمل درآمدکا آغاز ہوگیاہے۔اقدام اچھا ہے اور دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے سعودی عرب کے دروازے کھلنے کے  اقدام کے پس منظر میں ان ضوابط کی ضرورت بھی تھی کیونکہ حالیہ دنوں میں غیر ملکی سیاح خواتین کو مملکت میں عبایے یا برقعے کے بغیر گھومنے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔تاہم سیاح خواتین کیلئے موزوں لباس کا انتخاب کرنا ضروری قرار دیا گیاہے۔
سعودی عرب میں  وژن 2030 کے ہدف کے  تحت تیزی سے قوانین  وضع کئے جا رہے ہیں اوران تبدیلوں نے مملکت کو دنیا بھر میں خبروں کی سرخیوں میں جمایا ہوا ہے۔جب باہر اتنی باتیں ہوتی رہی ہوں، تواندرونِ ملک ہونے والی چہ مہ گوئیاں ہونا بھی یقینی بات ہے۔

 

سعودی عرب کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس کے متعلق افواہوں کا طوفان ہمیشہ گرم رہا۔ میں نے اپنے  20 سالہ صحافتی دور میں  افوہوں اور چہ مہ گوئیوں کے اثرات پر خصوصی توجہ مبذل رکھی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کسی بات کا  بتنگڑ بنانے کے لیے سیاسی و فلمی شخصیات جس طرح پسندیدہ ترین ہدف ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح ’ممالک‘ کی کیٹگری میں سعودی عرب بھی ایک من پسند نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز عموما  تجسس کا باعث بنتی ہے جس کے بارے میں معلومات نہ ہوں یا کم ہوں، اور سعودی معاشرہ بھی اپنی خصوصیت کے لحاظ سے کھلی حیثیت کا حامل نہیں رہا ہے۔ اب سیاحتی ویزوں کے اجراء کے بعد یقینا صورتحال مختلف ہو جائے گی اور دنیا سعودی عرب کو مزید جان سکے گی۔
چنانچہ جونہی ’ذوق العام‘ کے نئے ضوابط پر عمل در آمد کا پہلا دن آیا، عوامی چہ مہ گوئیاں بھی شروع ہو گئیں۔ اس دن اپنے دفتر سے گھر آتے ہوئے میں نے سوچا کہ تھوڑی پیٹ پوجا کر لی جائے۔ میری گاڑی کے ساتھ ایک اور گاڑی آکر رکی اور اس میں سے ایک خاتون نکل کر مجھ سے پہلے سینڈوچز لینے دکان کے اندر چلی گئیں۔ ان صاحبہ کا ڈرائیورتھکی تھکی سی حالت میں گاڑی سے نکلا اور میرے ڈرائیور سے مدد طلب کرنے لگا کیونکہ اس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا تھا۔
وہ کہہ رہا تھا کہ وہ شوگر کا مریض ہے اور دوائی بھی نہیں کھائی۔ یہ سن کرمیرا ڈرائیور اس کی مدد میں مصروف ہوگیا۔ میں بھی آرڈر دینے دکان میں گھس گئی۔ وہاں لائن لمبی تھی۔
سعودی خاتون بہت بے چین تھیں اور بار بار اپنے آرڈر کا پوچھ رہی تھیں۔ یہ دیکھ کرایک غیر ملکی گاہک اردو زبان میں بولا ” آج سے ہی’ذوق العام‘ کے ضوابط نافذ ہوئے ہیں۔ کم از کم آج ایک دن تو یہ خاتون اخلاقی ضابطے کا احترام کر لیتی۔ ایک تو اس نے قطار توڑی اور ہم سب سے آگے پہنچ گئی اور اب بار بار دکاندار سے اپنے آرڈر کا پوچھ پوچھ کر اسے تنگ کر رہی ہے“۔
میں نے جونہی  اپنے لئے دو سینڈوچز اور دو جوس خریدنے کا آرڈر دیا تو وہ گاہک دوسرے سے بولا، ”یہ لو جناب، آگئی ایک اور۔ اب یہ دو دو سیڈوچ کھائے گی“۔
بلاشبہ ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ مجھے اردو آتی ہے لیکن میں نے خاموشی اختیار کی۔ اتنے میں وہ دوسری سعودی خاتون  پھر سے اپنے آرڈر کا پوچھنے لگیں۔ آخر اس کو  اپنا آرڈر مل گیا۔

سعودی عرب کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس کے متعلق افواہوں کا طوفان ہمیشہ گرم رہا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اتنے میں میرے ڈرائیور نے مجھے کال کی۔ میں دکان سے نکل کر باہر آئی تو ڈرائیور بولا،”میڈم، اگر آپ کو اندر ٹائم لگے گا تو میں اس ڈرائیور کو لے کر سامنے پیٹرول پمپ تک چلا جاؤں؟“مگر ان سعودی خاتون نے اپنے ڈرائیور کو سینڈوچ دیتے ہوئے رکنے کو کہا۔ ”پہلے یہ کھا لو، تمہاری دوائی کا ٹائم ہے۔ کھانا اور دوا کھا کر تم جا سکتے ہو“۔میں پلٹ کر اپنے آرڈر کیلئے واپس دکان میں آگئی۔
وہاں وہی چہ مہ گوئیاں کرنے والا گاہک دکاندار سے زیادہ نمک مرچ ڈالنے پرلڑ رہا تھا۔ وہ دکاندار سے کہنے لگا کہ”ہمت ہے تو اس طرح کا سینڈوچ ابھی اس خاتون کو دے کر دیکھو۔ انھوں نے تو لائن توڑ کر آرڈر دیا اور تم نے انہیں کچھ نہیں کہا۔۔۔“
’اب اتنا نمک مرچ بھی نہ  لگایا کرو“ میں نے اچانک اردو میں کہا۔ میرا چہرہ کاؤنٹر کے اس پار کھڑے دکاندار کی طرف تھا۔ میری اردو سن کر وہاں ایک دم سے سناٹا چھا گیا۔ میں نے اب کی بار اس گاہک کی طرف منہ موڑا اور اس سے  براہِ راست مخاطب ہوکر اپنا جملہ دہرایا۔
”اب اتنا نمک مرچ بھی نہ لگایا کرو۔۔۔۔ اللہ کی پناہ!  نہ میں نے لائن توڑی، اور نہ ہی مجھ سے پہلے والی خاتون نے لائن توڑی تھی۔ بلکہ وہ آپ تھے جو خواتین کیلئے مخصوص جگہ پر اپنی لائن بنا کر کھڑے تھے۔اور آپ کو میں  بتاؤں کہ وہ  ’اخلاقیات کے  ضابطے سے ناواقف‘  سعودی خاتون کیوں جلدی کر رہی تھیں؟ ان کے ڈرائیور کو کھانے کے ساتھ شوگر کی دوائی لینی تھی۔ وہ اپنے ڈرائیور کیلئے یہاں کھانا لینے آئی تھی، اور اس کی دوائی کے خیال سے جلدی کر رہی تھی۔ اورجہاں تک میرے ’دو  عدد  سینڈوچز‘کے آرڈر کی بات ہے، تو بہتر ہے کہ آپ کی اصلاح کیلئے آپ کو میں یہ بھی بتا دوں کہ یہ سارے میں نے نہیں کھانے، بلکہ آدھا آرڈر میں نے اپنے  ڈرائیور کیلیے دیا ہے۔ ہمارے  ڈرائیور غیر ملکی ہیں۔
۔ویسے بھی ہنگامی صورتحال میں نئے سعودی اخلاقی ضوابط میں قطار کے بغیر خدمات حاصل کرنے کی چھوٹ بھی دی گئی ہے۔یہ سن کر گاہک بھائی نے مجھ سے معذرت کی تو میں نے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ باہر جو بیمار ڈرائیور ہے، اس کی مدد کر دیں۔یوں ان سعودی خاتون کی مدد بھی ہو جائے گی اور آپ کی خلش بھی مٹ جائے گی۔
ہم ترقی کی جانب بڑھتے ہوئے موجودہ وقت کے تقاضوں کے مطابق  ڈھل رہے ہیں۔آپ کو نکتہ چینی کا حق ہے لیکن صرف وہی بات کریں،جس میں سچائی و مثبت پہلو ہو۔بدامنی، ہتک، بے جا تنقید یا دخل اندازی نہ کریں۔اوراتنی نمک مرچ بھی نہ  لگایا کریں جو سینوں میں نفرت کی جلن بن کر دنیا کوبیمار کردے۔ کیا یہ کوئی غلط تقاضہ ہے؟

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: