Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چار سال سے مفلوج شخص کو چلانے والا ڈھانچہ

تھیبولٹ کا ماننا ہے کہ یہ تحقیق ’ان جیسے لوگوں کے لیے امید کا پیغام ہے۔‘ فوٹو: اے ایف پی
چار سال قبل ایک حادثے میں اپنے ہاتھوں اور پیروں سے مفلوج ہونے والا شخص دماغ کے ذریعے کام کرنے والے مصنوعی ڈھانچے کی مدد سے اب دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس میں 28 سالہ تھیبولٹ چار سال قبل 40 فٹ کی اونچائی سے گر گئے تھے جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی پر اثر ہوا تھا اور وہ کندھوں سے لے کر پیروں تک مفلوج ہو گئے تھے۔
تاہم ان کے ذہن پر اثر نہیں ہوا تھا۔
سائنسدانوں نے دماغ کے ذریعے کام کرنے والے مصنوعی ڈھانچے، ایکزوسکیلیٹن، کو ان کے جسم سے منسلک کیا ہے۔

تھیبولٹ کو مہینوں تک تربیت دی گئی تھی کہ وہ بنیادی حرکات کے لیے اپنے دماغ سے اشارے کریں۔ فوٹو: اے ایف پی

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے تھیبولٹ کا کہنا تھا، ’جب آپ میری جگہ پر ہوتے ہیں، جب آپ اپنے جسم سے کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ میں اپنے دماغ سے کچھ کرنا چاہتا تھا۔‘
تاہم مصنوعی ڈھانچے کی مدد سے ان کو چلانے سے قبل تھیبولٹ کو مہینوں تک تربیت دی گئی تھی کہ وہ بنیادی حرکات کے لیے اپنے دماغ سے اشارے کریں تاکہ اس کی مدد سے ان پر لگائے جانے والے آلات کام کرنا شروع کر سکیں۔
جن ڈاکٹروں نے یہ آزمائش کی ان کا کہنا تھا کہ یہ مصنوعی ڈھانچہ ابھی عوام کے لیے دستیاب نہیں ہوگا لیکن اس میں صلاحیت ہے کہ وہ مریض کو خودمختار بناتے ہوئے انہیں بہتر زندگی کے طرف جانے میں مدد دے سکے۔
تھیبولٹ کا کہنا ہے کہ انہیں اس مرحلے سے گزرتے وقت اپنی قدرتی حرکات کو دوبارہ، شروع سے سیکھنا پڑا تھا۔
’میں کل اس ایکزوسکیلیٹن میں گھر تک تو نہیں جا سکتا لیکن انتا ہے کہ  میں جب چاہوں چل سکتا ہوں۔ میں جب چاہوں چلتا ہوں اور جب چاہوں رک جاتا ہوں۔‘
ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ تقریباً 20 فیصد مریضوں کو ہاتھوں اور پیروں سے معزور کردیتی ہے۔
اس تحقیق کے مصنف الیم لویی بینابڈ کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں دماغ پیغامات بھیج رہا ہوتا ہے جس سے عام طور پر ہاتھ اور پیر چلیں لیکن وہ عضو دماغ کے بھیجے گئے اشاروں پر عمل نہیں  کر پاتے۔
ماہرین کی ایک ٹیم نے اس تحقیق کے لیے دو آلات تھیبولٹ کے سر کے دونوں کونوں پر لگائے جس کے ذریعے دماغ سے بھیجے گئے اشاروں کو مریض پر لگے مصنوعی ڈھانچے تک بھیجا گیا تاکہ وہ جسم کو حرکت میں لا سکے۔
اس تحقیق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کامیاب تجربوں سے امید کی جا سکتی ہے کہ مفلوج افراد کے لیے دماغ کے اشاروں کی مدد سے چلنے والی وہیل چئیر بھی بن جائے۔
الیم لویی بینابڈ کا کہا تھا کہ اس کا مقصد یہ بلکل نہیں کہ انسان کو مشین بنا دیا جائے بلکہ یہ ایک طبی مسئلے کا حل ہے۔
تھیبولٹ کا ماننا ہے کہ یہ تحقیق ’ان جیسے لوگوں کے لیے امید کا پیغام ہے۔‘

شیئر: