Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب غریب خواتین نے بادشاہِ وقت کو للکارا

1788 میں فرانس کی معاشی حالت اتنی خراب ہو گئی تھی کہ آٹا بھی نایاب ہو گیا تھا۔ فوٹو وکیپیڈیا
پیٹ کی بھٹّی دہک رہی ہو تو نیند بھی ایڑھیاں رگڑنے لگتی ہے۔
زیادہ تر لوگ جاگ رہے تھے۔ ایک ماہ سے آٹا نہیں مل رہا تھا اور اگر ملتا بھی تو انتہائی مہنگا، اکثریت فاقے سے تھی۔
پھرایک عجیب واقعہ ہوا۔
یہ اکتوبر1789 کی صبح تھی۔ ایک نوجوان خاتون ہاتھ میں گھی کا خالی ڈبہ لیے، لکڑی کی چھڑی سے بجاتے ہوئے اعلان کر رہی تھی۔
 ’باہر نکلو ماؤں، بہنو، لڑکیو! خوراک کے لیے، انتقام کے لیے‘
اس دوشیزہ کی آواز نے گویا جادو جگا دیا۔
ایک ایک کر کے خواتین باہر نکلنا شروع ہوئیں۔
اوراکٹھے ہوتے ہوتے ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے ہزاروں تک پہنچ گئی۔
ان میں امیر گھرانوں میں کام کاج کرنے والی غریب خواتین سے لے کر انہی گھروں کی بیگمات تک شامل تھیں۔
وہ چلتی رہیں، آگے بڑھتی رہیں۔
پیرس ٹاؤن ہال کے دروازے اور سکیورٹی ان کے سامنے خس و خاشاک ثابت ہوئی۔
چند ہی منٹ میں ہال پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ انتظامیہ ہل کررہ گئی۔ کیونکہ وہاں اسلحے اور گولہ باردو کا سیکشن بھی تھا اور خواتین کے پاس ماچسیں تھیں۔
پھر کیا ہوا اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہو گا کہ ایسا کیوں ہوا۔
یہ واقعہ اس ملکہ کا سر قلم کیے جانے سے چند سال قبل پیش آیا جس نے کہا تھا ’کہ اگر ان لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تو یہ کیک کیوں نہیں کھا لیتے؟‘

اکتوبر1789 میں ایک نوجوان لڑکی کے اعلان نے فرانس میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔

انقلاب فرانس کا آغاز

فرانس ایک خوشحال اور مہذب ملک تھا 1788 میں اس کی اقتصادی صورت حال کچھ بگڑی جبکہ انہی دنوں اس نے امریکہ کی مدد شروع کر دی جو اس وقت آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔
 اس پر فرانس نے تقریباً ایک ارب ڈالر خرچ کر دئیے۔ اسی سال درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا گیا اور گندم کی پیداوار متاثر ہونے پر ملک میں قحط پڑگیا۔
بحران کا حل نکالنے کے لیے عوام پر نئے ٹیکس لگا دئیے گیے جس پر اختلاف کرنے پر بادشاہ لوئی نے عوام دوست سمجھے جانے والے وزیر خزانہ جیک نیکر کو برطرف کردیا۔
اس اقدام پرعوام بھڑک گئے اور احتجاج شروع ہو گیا۔
احتجاج کرنے والے بیسیوں لوگ گرفتارکرلیے گئے۔ اگلے ہی روز مزید لوگ نکلے اسلحے کے ڈپو پر حملہ کیا، دروازے توڑ کر بندوقیں حاصل کیں اور سیدھے جیل پہنچ کر گرفتار کیے جانے والے لوگوں کو زبردستی چھڑوا لیا۔
اس سے بھی بادشاہ نے سبق سیکھا تو محض اتنا کہ اس وزیر کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرلیا جس سے وقتی طور پر آگ ٹھنڈی ہوگئی لیکن بجھی نہیں۔
چند ہی ماہ بعد صورت حال اتنی خراب ہو گئی کہ آٹا نایاب ہوگیا۔
اس حوالے سے تھامس کارلائل نامی مورخ نے لکھا ہے کہ ’عوام بھوک کا شکار تھے، ان پر مزید ٹیکس لگائے جا رہے تھے، بادشاہ کے دربار کے خفیہ اور ظاہری بے پناہ اخراجات، جاگیردارانہ نظام اور کیتھولک چرچ کے غیر لچکدارانہ رویے سے مایوسی پھیلتی گئی اور پھر جولائی سے اکتوبر تک لوگوں کو ناشتے کے لیے ڈبل روٹی تک نہ مل سکی۔‘

خواتین نے ورسیلز محل کے باہر احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ بادشاہ خود لوگوں میں اناج  تقسیم کرے۔ 

بپھری خواتین کا اگلا قدم

انتظامیہ کے خدشات غلط ثابت ہوئے خواتین نے ٹاؤن ہال کے سامان کی توڑ پھوڑ ضرور کی، عملے پر تشدد کیا جو بمشکل جان بچا کر بھاگا لیکن گولہ بارود کے ذخیرے کو آگ نہیں لگائی۔ وہاں پر نعرے بھی لگائے گئے، تقاریر بھی ہوئیں اور ایک بار پھر خواتین چل پڑیں، اب کے ان کا رخ اسمبلی ہال کی طرف تھا۔
بادشاہ کے حکم پر انتظامیہ الرٹ ہو چکی تھی لیکن انہیں روکنا مشکل تھا، ہرگلی میں ہجوم کی تعداد پہلے سے بڑھ جاتی۔
چلتے چلتے وہ اسمبلی ہال کے سامنے پہنچ گئیں جس کے گیٹ بند ہو چکے تھے تاہم خواتین احتجاج کرتی رہیں،  حتٰی کہ دروازے کُھل گئے۔
مذاکرات
بڑھتی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے بادشاہ کی اجازت سے انتظامیہ نے ان سے مذاکرات شروع کیے اور پندرہ خواتین کو چند اراکین اسمبلی سے ملاقات کی اجازت دی گئی۔
انتظامیہ ان کو ’انگیج‘ کر کے ’جواب‘ کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتی تھی اور ان کا خیال تھا کہ بات چیت اور لے دے پر گھنٹوں صرف ہو جائیں گے جس دوران حالات کو قابو میں لانے کی سبیل کر لی جائے گی لیکن احتجاج کے لیے آنے والیاں بھی تمام ہتھکنڈوں سے باخبر تھیں اس لیے انہوں نے چند منٹ میں ہی بڑا واضح موقف اور مطالبہ فیصلہ کن انداز میں پیش کر دیا۔

آٹا اور بادشاہ

انہوں نے دوٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ ’ہمیں آٹا اور بادشاہ سے ملاقات کا وقت چاہیے‘ جس پر اراکین اسمبلی نے بہت کوشش کی کہ انہیں آٹا فراہم کرتے ہوئے پچاس فیصد مطالبہ پورا کر دیا جائے لیکن وہ نہ مانیں، درباری ہرکارے بار بار چکر لگاتے اور بادشاہ کو صورت حال سے آگاہ کرتے رہے اسمبلی اراکین کا خیال تھا کہ جلد ہی وہ تھک ہار جائیں گی اور بالآخر واپسی کی راہ لیں گی کیوںکہ وہ خود بھی بھوکی تھیں اور گھروں میں ان کے اہل خانہ بھی، لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور وہ ورسیلز یعنی شاہی محل کی طرف چل پڑیں۔

خواتین کا اس انقلاب سے فرانس کی عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہو گیا تھا۔

بادشاہ سے ملاقات
بادشاہ کو لمحہ بہ لمحہ رپورٹ دی جا رہی تھی اور جب کوئی چارہ نہ رہا تو اس نے ملاقات کی ہامی بھر لی۔ صرف چار خواتین کو بادشاہ سے ملنے کی اجازت دی گئی، لیکن یہ ایک مختصر ملاقات ثابت ہوئی۔
جلد ہی ایک شاہی فرمان جاری ہوا جو آٹے کی بلاروک ٹوک اور فوری سپلائی کے حکم پر مشتمل تھا۔
احتجاجی خواتین نے اس حکم نامے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور مطالبہ کیا کہ ’بادشاہ اناج لے کر خود عوام تک پہنچیں کیونکہ ہمیں اناج کنٹرول کرنے والے حکام پر اعتبار نہیں ہے۔‘
بادشاہ کے انکار پر احتجاج کرنے والیوں نے فیصلہ سنایا کہ جب تک مطالبہ نہیں مانا جاتا وہ یہیں بیٹھی رہیں گی۔
اس سے اگلے دو روز بڑے عجیب تھے، ورسیلز شاہی محل کی سیڑھیوں سے لے کر باغیچوں، برآمدوں، اصطبل تک ہر جگہ خواتین موجود تھیں۔
وہ آپس میں باتیں بھی کرتیں، نعرے بھی لگاتیں، سو بھی جاتیں لیکن موقف سے پیچھے نہ ہٹتیں، اس دوران مردوں کی ایک بڑی تعداد بھی محل کے باہر پہنچ گئی۔
بادشاہ نے طاقت کے استعمال کا ارادہ کیا تو زعما نے ان کو عوام کے جیل پر قبضے کا واقعہ یاد کرواتے ہوئے اس سے منع کردیا۔

بادشاہ ہار مان گیا

اب کوئی چارہ نہیں بچا تھا، بادشاہ کوبادل نخواستہ مطالبات ماننا پڑے۔ اناج کی سپلائی کے کاغذات پر دستخط ہوئے، بڑے بڑے چھکڑوں پر اناج کی ہزاروں بوریاں لادی جا رہی تھیں، جب کہ قریب ہی شاہی بگھی کھڑٰی تھی جس میں سوار ہو کر بادشاہ نے قافلے کے آگے آگے چلنا تھا، خواتین بہت جوش میں تھیں، شہر کے طول و عرض میں خبر پھیل چکی تھی، لوگ گھروں سے تاریخی مناظر دیکھنے کے لیے نکل آئے۔ تھوڑی دیر بعد بادشاہ شاہی محل سے نکلے، بگھی میں سوار ہوئے اور قافلہ چل پڑا، خواتین اس کے ساتھ ساتھ چلتی جا رہی تھیں، ناچتی گاتی جا رہی تھیں کہ ہم نے اپنے مطالبات منوا لیے۔

ورسیلز مارچ اور انقلاب

ماہرین کا ماننا ہے کہ اس مارچ کا انقلاب فرانس میں بہت اہم کردار ہے کیونکہ اس سے عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ دوسری جانب اسے بادشاہ لوئی کی بدقسمتی یا کوتاہ بینی ہی کہا جا سکتا ہے کہ عوامی غیض و غضب کو اتنے قریب سے دیکھنے کے باوجود وہ آنے والے حالات کا اندازہ نہ لگا سکا اور اس واقعے کے محض تین سال بعد وہ وقت آیا جب مظاہرین اسے گھسیٹتے ہوئے گلوٹین کی طرف لے گیے۔

شیئر: