Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پہلے لیپ ٹاپ تقسیم ہوا کرتے تھے مگر اب برقعے‘

مردان میں طالبات میں برقعے تقسیم کیے گئے ہیں۔ فوٹو: ٹوئٹر
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلے مردان کے علاقے رستم کے ایک مڈل سکول کی 90 طالبات میں برقعے تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تصاویر موجود ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ہی رنگ کے درجنوں ٹوپی والے برقعے میز کے اوپر پڑے ہیں جبکہ دوسری تصویر میں کلاس میں موجود تقریباً 40 طالبات برقعے پہن کر بیٹھی اور کچھ کھڑی ہیں۔
سوشل میڈیا پر صارفین نہ صرف ان تصاویر کو شیئر کر رہے ہیں بلکہ اس حوالے سے مختلف طرح کے تبصرے بھی سامنے آرہے ہیں۔
اردو نیوز نے اس بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے یونین کونسل پلوڈھیری کے سابق ڈسٹرکٹ ممبر مظفر شاہ سے رابطہ کیا جن کی جانب سے برقعے تقسیم کیے گئے ہیں۔
مظفر شاہ نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ پچھلے بجٹ کے پانچ لاکھ فنڈ سے انہوں نے مختلف سکولوں کو یونیفارم مہیا کیے تھے جن میں گورنمنٹ مڈل گرلز سکول چینہ بھی شامل تھا۔
ان کے مطابق اس سکول کی انتظامیہ کی جانب سے درخواست کی گئی تھی کہ بچیوں کو مختلف رنگ کے برقعے پہن کر آنا پڑتا ہے اس لیے ایک ہی رنگ کے برقعے اور چادریں فراہم کی جائیں۔
’اس درخواست پر برقعے خریدے گئے اور تقسیم کیے گئے۔‘

مظفر شاہ کے مطابق برقعے انتظامیہ کی درخواست پر خریدے گئے۔ فوٹو: ٹوئٹر

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا طالبات کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ لازمی برقعہ پہن کر آئیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے، ہم نے صرف مہیا کیے ہیں اب اگر انہیں کوئی نہیں پہنتا تو اس کی مرضی ہے۔‘
اس سوال کہ کیا یہ برقعے یونیفارم کا حصہ بن گئے ہیں؟ کے جواب میں مطفر شاہ نے کہا، نہیں، ضروری نہیں کہ یہی برقعے پہن کر طالبات آئیں، یہ یونیفارم کا حصہ نہیں ہیں۔
’ہمارے علاقے کے رواج کے مطابق تمام طالبات خوشی سے پردہ کرتی ہیں، اس میں کوئی زبردستی نہیں ہے اور نہ ہی ان کے والدین کی جانب سے کوئی اعتراض کیا گیا ہے۔‘
کیا آپ کو محکمہ تعلیم کی جانب سے بھی کہا گیا تھا کہ ایسا کریں؟
اس سوال پر مظفر شاہ کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی ہدایت جاری نہیں ہوئی تھی، بس مقامی سطح پر ہی محکمے کے مقامی حکام کو نوٹس میں لا کر برقعے تقسیم کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فنڈ تھا ہی سکولوں کی ضروریات کے لیے، اس لیے جب درخواست کی گئی تو اس پر عمل کیا گیا۔
برقعوں کی تصاویر دیکھ کر سوشل میڈیا صارف نائلہ عنایت نے لکھا ہے کہ ’پرانے پاکستان میں سٹوڈنٹس کو لیپ ٹاپ دیے جاتے تھے جبکہ نئے پاکستان میں سکول کی طالبات کو برقعے دیے جا رہے ہیں۔ مردان کے سکول میں ایک لاکھ روپے کے برقعے تقسیم کیے گئے۔‘
ثنا اعجاز نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ہے ’مردان میرا آبائی گاؤں ہے اور ہمارے ہاں سفید چادر کا رواج ہے. بڑی عمر کی خواتین دو تہوں والی بڑے ارض والی چادر پہنتی ہیں اور لڑکیاں کڑھائی کی سفید چادریں، برقع ہمارا کلچر ہے ہی نہیں. یہ پی ٹی آئی حکومت کے کمالات ہیں کہ ضلع کونسل کے فنڈ سے برقعے لے کر بچیوں میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔‘
ایک صارف طلحہ نے برقوں کے حمایت میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’کے پی کے گورنمنٹ نے مردان کے سکول میں برقعے تقسیم کیے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد میں ڈیفینس کے علاقوں میں بیٹھے لوگوں کو اس سے کیا مسئلہ ہے؟ برقعہ بہت سے لوگوں کے کلچر اور مذہب کا حصہ ہے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ مغربی ممالک میں (مسلم) خواتین کے لیے برقعہ پہننا ایک مسئلہ ہے۔ کیا یہاں بھی ایسا ہی ہے؟‘
اس بارے میں حکومت کا موقف جاننے کے لیے خیبرپختونخوا کے وزیر تعلیم ضیااللہ بنگش اور وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے بار بار رابطے کی کوشش کی گئی جن میں سے ایک وزیر نے فون نہیں سنا جبکہ دوسرے کا نمبر بند تھا۔

شیئر: