Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایسٹ ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘

جسٹس فائز عیسی کے بقول ان کے خلاف درخواست گزار کو چھپایا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کیس میں جواب الجواب میں کہا ہے کہ بیرون ملک اثاثہ جات کی بازیابی کے لیے بنائے گئے ایسٹ ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے یونٹ کے قیام یا اس کے چیئرمین شہزاد اکبر کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن اعلی عدالت میں پیش نہیں کیا۔
ان کے مطابق اب اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور ناں ہی اس کے چئیرمین شہزاد اکبر یا اس کے ’نام نہاد قانونی ماہر‘ ضیاالمصطفی نسیم کے پاس کوئی قانونی اختیار ہے۔
انہوں نے سوال اُٹھایا کہ اے آر یو اور اس کے چئیرمین کے پاس کوئی آئیینی اختیار نہیں ہے کہ وہ ایک عام آدمی کے خلاف بھی تحقیقات کر سکیں تو وہ کیسے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف تحقیقات کا حکم دے سکتے ہیں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے مزید کہا گیا ہےکہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کی زیر کفالت نہیں اس وجہ سے مالی معاملات کا علم نہیں، اہلیہ اور بچوں کی زیر ملکیت جائیدادوں کی تفصیل سے آگاہ کرنے کا نہیں کہا جاسکتا۔

’میری تمام جائیدادوں کی مالیت اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ایک کنال کے گھر سے کم ہے۔‘ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے کی صدر کو سفارش کرنے والے وزیراعظم عمران خان اگر سمجھتے ہیں کہ قانونی طور پر ایک شخص کو اپنے تمام اہلخانہ کے اثاثے پتہ ہونے چاہیے تو ان کے اپنے اثاثے اور ویلتھ سٹیٹمنٹ کیوں سپریم جوڈیشل کونسل یا سپریم کورٹ میں نہیں جمع کروائی گئی تاکہ پتہ لگایا جا سکے کہ انہوں نے اپنی بیویوں اور چھوٹے بچوں کے اثاثے ظاہر کیے ہیں یا نہیں۔
ان کے بقول آئین کے آرٹیکل 27 اور اسلامی تعلیمات دونوں کی رو سے وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے اثاثہ جات کو استثنی کے نام پر چھپائے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
جواب میں مزید کہا گیا ہےکہ ’صدارتی ریفرنس کا مقصد ججوں کی عیب جوئی اور ان کو خاموش کرانا ہے، الزام لگا کر میری شہرت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف درخواست گزار مسٹر ڈوگر جھوٹی خبریں گھڑنے میں بدنام ہیں مگر ایسے وقت میں جب ایک سپریم کورٹ کے جج کی عزت کو ہر طرف اچھالا جا رہا ہے ایسے میں درخواست گزار کو ہر طرح سے چھپایا جا رہا ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق ’یہ بھی مان لیا گیا ہے کہ درخواست گزار ٹیکس نہیں دیتا۔ اس کی نوکری کا بھی نہیں بتایا جا رہا۔اس طرح کے حیرت انگیز تحفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ درخواست گزار کو کٹھ پتلی کی طرح استعمال کرنے والے بہت طاقتور ہیں۔‘
انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ مسٹر ڈوگر کو طلب کرکے کے ان کے مشکوک طرز عمل، ان کے بیرون ملک سفر اور ٹیکس کی تفصیلات حاصل کی جائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ ان کی بیوی اور بچوں کی اپنے پیسوں سے خریدی گئی جائیداوں کو مہنگا کہا جا رہا ہے جبکہ حقیقت ہے کہ انہوں نے پہلی جائیداد 2004 میں دو لاکھ 36 ہزار پاؤنڈ (دو کروڑ 60 لاکھ پاکستانی روپے) میں خریدی، پھر 2013 میں دو لاکھ 45 ہزار پاؤنڈ میں دوسری اور دو لاکھ 70 ہزار پاؤنڈ میں تیسری جائیداد خریدی۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر وکلا احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ تمام جائیدادوں کی مالیت مل کر بھی کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ایک کنال کے گھر کی قیمت سے کم ہے۔
ان کے جواب کے مطابق ’کراچی میں 16 سو مربع گز کا گھر ہے جو پچھلے 10 سال سے خالی ہے، بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ کوئٹہ اور جج سپریم کورٹ اسلام آباد میں رہائش پذیر رہا ہوں، لندن یا بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اور نا ہی اہلیہ کی دوہری شہریت ہے۔‘
جسٹس قاضی فائز نے اعتراض اٹھایا کہ کونسل کا جواب اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کرانا درست نہیں، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی اجازت کا ریکارڈ موجود نہیں۔ کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کا جواب جمع کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اٹارنی جنرل صرف وفاقی حکومت کو قانونی معاملات میں مشورے دیتا ہے نا کہ نجی پریکٹس کرے۔
انہوں نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کے خلاف دائرہ اختیار سے باہر جانے پر کارروائی کا حکم دیا، کونسل کو اختیار حاصل نہیں تھا کہ اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کی ذمہ داری دیتی، کونسل کی جانب سے اٹارنی جنرل کو اپنا وکیل تفویض کرنا آئین کی شق 100 کی خلاف ورزی ہے۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل انور منصور خان وفاقی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں، بطور وفاقی حکومت کے نمائندہ یہ عمل آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، اٹارنی جنرل کو کارروائی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے تھا جس کے لیے وفاق نے انہیں مختص نہیں کیا۔
ان کے مطابق کسی وکیل کو جج کے ساتھ کسی نجی معاملے پر بات چیت یا بحث نہیں کرنی چاہیے، کونسل اور سیکرٹری کے مناسب جواب نا آنے پر الزامات کو تسلیم شدہ تصور کیا جائے۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے دو ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔

شیئر: