Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سمارٹ فون لگژری نہیں‘، قومی اسمبلی کی کمیٹی نے فونز پر ٹیکس کم کرنے کی سفارش کر دی

شرمیلہ فاروقی نے کہا کہ تین لاکھ ستر ہزار روپے کا موبائل فون خریدا، لیکن ابھی تک استعمال نہیں کیا کیونکہ اس پر ایک لاکھ 90 ہزار روپے کا ٹیکس دینا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
 قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سمارٹ فونز پر عائد ٹیکسز میں کمی کے لیے ایف بی آر کو جامع رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت کر دی ہے، جسے مارچ 2026 تک پیش کرنا ہوگا۔
رپورٹ میں یہ طے کیا جائے گا کہ ایف بی آر موبائل فونز پر عائد موجودہ ٹیکس کس طرح کم کر سکتا ہے۔
منگل کو چیئرمین سید نوید قمر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ایف بی آر نے ایک مالی سال میں مجموعی طور پر موبائل فونز سے 82 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جبکہ صرف سمارٹ فونز سے ایک سال میں 18 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا۔
موبائل فونز پر عائد ٹیکسز میں کمی کے معاملے پر چیئرمین کمیٹی سید نوید قمر نے ریمارکس دیے کہ سمارٹ فونز کا استعمال اب عام ہو چکا ہے اور یہ کوئی لگژری آئٹم نہیں جس پر اتنا زیادہ ٹیکس لگایا جائے، یہ معاملہ ایف بی آر کو دیکھنا پڑے گا۔
چھ سے آٹھ سال پرانے موبائل فون پر بھی ٹیکس عائد ہے‘
کمیٹی میں خصوصی دعوت نامے پر شریک سید علی قاسم گیلانی، جو اس ٹیکس میں کمی کے حوالے سے کافی متحرک ہیں، نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ ’سمارٹ فونز پر ٹیکسز اتنے زیادہ ہیں کہ یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں، اس لیے انہیں کم کرنا بہت ضروری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چھ سے آٹھ سال پرانے موبائل فونز پر بھی ایف بی آر ٹیکس لیتا ہے اور آئی فون 12 کی قیمت پر ٹیکس اس کی اصل قیمت سے بھی زیادہ ہے۔‘
رکن کمیٹی شرمیلہ فاروقی کا کہنا تھا کہ ’تین لاکھ ستر ہزار روپے کا موبائل فون خریدا، لیکن ابھی تک استعمال نہیں کیا کیونکہ اس پر ایک لاکھ 90 ہزار روپے کا ٹیکس دینا ہے۔ موبائل کی قیمت پر 60 فیصد ٹیکس سمجھ میں نہیں آتا۔ ٹیکس ضرور لیا جائے لیکن اس قدر نہیں کہ دیتے ہوئے جان نکل جائے۔‘

گاڑیوں اور موبائل فونز پر ٹیکسز ایک جیسے ہیں

 اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی کا مزید کہنا تھا کہ ’گاڑیوں اور موبائل فونز پر ٹیکسز کو ایک ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ بڑی گاڑی، بڑا موبائل…اب اس رویے کو ختم کرنا چاہیے۔ امیر ہونا کوئی جرم نہیں، قیمتوں کو مناسب بنانا ضروری ہے۔‘
سید علی قاسم گیلانی نے کمیٹی کو بتایا کہ ’آئی فون 16 کی قیمت ایف بی آر نے 1600 ڈالر مقرر کی ہے، جبکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت اس سے کم ہے، اس لیے حقیقت پر مبنی ٹیکس عائد ہونا چاہیے۔‘
قائمہ کمیٹی میں شریک چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر)  حفیظ الرحمان کا کہنا تھا  کہ اگر کوئی فون باہر سے آتا ہے تو سم ڈالنے پر ہی پی ٹی اے کو معلوم ہو جاتا ہے۔ مقامی سطح پر موبائل مینوفیکچرنگ کے حساب سے ٹیکسز کو بھی ریشنلائز کیا جانا چاہیے۔
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ ’ میں نے خود موبائل فون پر ایک لاکھ 63 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا، جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پی ٹی اے کا ٹیکس ہے یا ایف بی آر کا۔‘
چیئرمین ایف بی آر راشد لنگریال نے موبائل فونز پر عائد ٹیکس سے متعلق کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ ’موجودہ ٹیکسز میں کمی کے لیے وزارت آئی ٹی کے ساتھ مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’اب ٹیکس پالیسیز ایف بی آر سے الگ ہو چکی ہیں۔ اگر یہ معاملہ ٹیکس پالیسیز کے متعلقہ افسروں کے پاس بھیجا جائے تو ایف بی آر اس پر عمل درآمد کرے گا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف بی آر نے مالی سال میں موبائل فونز سے مجموعی طور پر 82 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا، جس میں 18 ارب روپے صرف سمارٹ فونز (مہنگے فونز) سے جمع ہوئے۔
بعد ازاں قائمہ کمیٹی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا اور ایف بی آر کو ہدایت کی گئی کہ وہ موبائل فونز پر عائد ٹیکسوں میں کمی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ تیار کرکے مارچ 2026 تک پیش کرے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ملتان سے رکن قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید علی گیلانی اس وقت موبائل فونز پر عائد ٹیکسز کے خلاف خاصے متحرک ہیں۔
انہوں نے اس حوالے سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی، ایف بی آر اور پی ٹی اے سے بات کی ہے اور ساتھ ہی قائمہ کمیٹی کو خط بھی ارسال کیا۔ اس کے بعد انہیں خصوصی دعوت نامے پر قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بلایا گیا اور ان کی سفارشات پر ٹیکس میں کمی کے حوالے سے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

 

شیئر: