Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کمرہ عدالت ہے جلسہ گاہ نہیں‘ اور خاموشی چھا گئی

نواز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کی، فوٹو: اے ایف پی
لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت کے مقدمے کی سماعت ہو اور وکیلوں اور میڈیا کی ضرورت سے زیادہ توجہ نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جمعہ کے روز سابق وزیراعظم کی ضمانت کی درخواست جسٹس علی باقر نجفی کی عدالت میں دو رکنی بینچ نے کرنا تھی اور کمرہ عدالت ساڑھے آٹھ بجے ہی کچھا کھچ بھرا ہوا تھا، اور عدالت لگنے سے پہلے ہی چہ میگوئیاں عروج پر تھیں۔
وکیل صحافیوں سے اور صحافی وکیلوں سے ایک ہی سوال کر رہے تھے ’آج پھر میاں صاحب کو ضمانت دلوا رہے ہیں کیا؟‘
اور سوال کے بعد مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا، کچھ جواب ہاں میں ہوتے کچھ نہ میں اور پھر اپنے جواب کے حق میں دلائل شروع ہو جاتے۔ ٹھیک نو بجے ججز اپنے چیمبر سے کمرہ عدالت میں پہنچے تو سناٹا چھا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد جمال سکھیرا نے عدالت سے معذرت کی کہ سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز ابھی راستے میں ہیں اور کسی بھی وقت پہنچنے والے ہیں۔ جس پر عدالت برخاست ہو گئی اور پروفیسر صاحب کا انتظار ہونے لگا۔

ٹھیک نو بجے ججز اپنے چیمبر سے کمرہ عدالت میں پہنچے تو سناٹا چھا گیا، فوٹو: مسلم لیگ ن

خیال رہے کہ پروفیسر محمود ایاز سروسز ہسپتال کے اس طبی بورڈ کے سربراہ ہیں جو نواز شریف کی صحت بحالی کے لیے حکومت نے قائم کیا ہے۔
ساڑھے نو بجے پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز پہنچے تو پانچ منٹ کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا۔ بینچ کے سربراہ جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ ’وہ نوٹی فیکیشن دکھایا جائے جو اس طبی بورڈ سے متعلق ہے اور کل کتنے ڈاکٹرز اس بورڈ میں ہیں؟‘ جس پر ڈاکٹر محمود ایاز نے معذوری ظاہر کی کہ ’وہ نوٹی فیکیشن اس وقت ان کے پاس موجود نہیں جبکہ ڈاکٹروں کی کل تعداد دس ہو چکی ہے، بورڈ میں اب نواز شریف کے ذاتی معالج کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔‘
 ساتھ ہی انہوں نے سابق وزیراعظم کی صحت سے متعلق تازہ ترین معلومات دیں کہ ’وہ شدید علیل ہیں اور ان کے سفید خلیے جس تیزی سے ختم ہو رہے ہیں یہ انتہائی غیر معمولی صورت حال ہے۔ اگر ان سفید خلیوں کو زبردستی بڑھانے کی کوشش کی تو ان کے لیے خطرناک ہو گا کیوں کہ وہ دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں۔‘ اسی دوران بینچ نے مشاورت کی اور ڈاکٹر محمود ایاز کو کہا کہ ’وہ نوٹی فیکیشنز اور اپنا یہ بیان تحریری طور پر پیش کریں‘ اور انہیں ساڑھے بارہ بجے تک کا وقت دیتے ہوئے عدالت ایک بار پھر برخاست کر دی۔ بارہ بجے لگ بھگ کمرہ عدالت کے باہر اور اندر اچانک سکیورٹی معمول سے زیادہ کر دی گئی تو پتا چلا کہ صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف کمرہ عدالت میں کارروائی دیکھنے کے لیے آ رہے ہیں۔

اشتر اوصاف جذباتی ہو گئے اور ان کہ آواز کمرہ عدالت میں خاصی اونچی ہو گئی، فوٹو: اے ایف پی

 اسی دوران نواز شریف کی جانب سے اس مقدمے میں پارٹی بننے کے لیے درخواست بھی دائر کر دی گئی کیونکہ بنیادی پٹیشن شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
شہباز شریف کمرہ عدالت میں پہنچے تو وکلا ان کے ساتھ سیلفیاں بنانے میں مشغول ہو گئے جسے عدالت کے اردلی نے اونچی آواز میں روکا اور کہا عدالت میں سیلفیاں بنانا منع ہے۔
 پونے ایک بجے دوبارہ مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا کیونکہ پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز ایک مرتبہ پھر تاخیر سے پہنچے تو معزز بینچ نے سب سے پہلے نئی آنے والی درخواست، جو نواز شریف نے مقدمے کا حصہ بننے کے لئے دائر کی تھی، کی سماعت کی۔
معززعدالت نے نیب کے پراسیکیوٹر سے اس حوالے سے پوچھا کہ ’کیا وہ اس کی مخالفت کریں گے؟‘ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہیں اعتراض نہیں۔
مقدمے کی کارروائی آگے بڑھی تو عدالت نے طبی بورڈ کے سربراہ کو اپنی لائی ہوئی رپورٹ پڑھنے کے لیے کہا۔ جس میں انہوں نے کم و بیش وہی باتیں کیں جو وہ پہلے کر چکے تھے۔ اس کا لب لباب یہی تھا کہ نواز شریف کے مرض کی تشخیص کرنا ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا کیوں کہ بون میرو اور پیٹ ٹیسٹ نہیں لیے جا سکتے جو تشخیص میں معاون ہوں گے کیونکہ سفید خلیوں کی قلیل تعداد میں یہ ٹیسٹ کرنا ممکن نہیں، اور سفید خلیے اتنی تیزی سے تباہ ہونے کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ رپورٹ پڑھے جانے کے بعد نواز شریف کے وکلا نے بھی یہی نقطہ اٹھایا کہ ’معاملہ زندگی اور موت کا ہے اور صحت یاب ہونا بنیادی انسانی حق ہے لٰہذا عدالت ضمانت پر رہائی کا حکم دے۔‘

شہباز شریف کمرہ عدالت میں پہنچے تو وکلا ان کے ساتھ سیلفیاں بنانے میں مشغول ہو گئے، فوٹو: اے ایف پی

 بینچ کے سربراہ جسٹس علی باقر نجفی نے نیب کے وکیل سے پوچھا کہ ’وہ ہاں یا نہ میں بتائیں کہ ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟ جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ ’زندگی بچانے کا عمل ہر دوسری چیز سے زیادہ ضروری ہے۔‘ اسی دوران ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب معزز بنچ کے سربراہ نے وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشفاق احمد خان سے پوچھا کہ ’کیا نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’آج صبح تک تو نہیں تھا، میں کمرہ عدالت میں آنے سے پہلے چیک کر کے آیا ہوں۔‘ اسی دوران نواز شریف کے وکلا نے کہا کہ ’انہیں شک ہے کہ ان کے موکل کا نام ای سی ایل پر ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب دوبارہ چیک کر لیں۔‘ معزز بینچ نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کا ایک ایک لفظ جو عدالت کے روبرو ہے وہ درست ہونا چاہیے آپ دوبارہ چیک کر کے عدالت کو آگاہ کریں‘ جس کی انہوں نے ہامی بھر لی۔ اس کے بعد عدالت نے کہا کہ ’اس مقدمے کی کارروائی مکمل ہو چکی، اب مریم نواز کے مقدمے کی سماعت شروع ہو گی‘ جس میں انہوں نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کر رکھی تھی۔ ان کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ ’نواز شریف اس وقت تنہا ہیں اور ان کی بیٹی ہی ان کے ساتھ رہ کر ان کی صحت میں بہتری کا سبب بن سکتی ہیں اور ان کو ضمانت دینے سے مقدمے پر کسی بھی قسم کا اثر نہیں پڑے گا۔‘

 

بینچ کے سربراہ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ ’تارڑ صاحب ہم پہلے ہی آپ کی جلد سماعت کی درخواست مان چکے ہیں لیکن قانونی طور پر ہم آگے نہیں جا سکے کیونکہ نیب نے ابھی تک آپ کی پٹیشن کا جواب داخل نہیں کروایا۔‘ عدالت نے مریم نواز کے مقدمے میں جواب داخل کروانے اور ای سی ایل سے متعلق حقائق جاننے کے لیے مقدمے کی سماعت سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دی۔
ساڑھے تین بجے سماعت کا آغاز ہوا تو نیب کے وکیل نے کہا کہ ’وہ جلد عدالت میں جواب جمع کروا دیں گے۔‘ مریم نواز کے وکیل نے استدعا کی کہ ’یہ دونوں درخواستیں ایک جیسی ہیں، پیر کے روز تک نیب کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنا جواب داخل کرے۔‘ نیب کے وکیل نے منگل تک کی مہلت مانگی جسے معزز بینچ نے مسترد کر دیا اور کہا کہ ’پیر تک ہی جواب داخل کروائیں۔‘

جیسے ہی جج نے کہا کہ درخواست منظور کی جاتی ہے تو کمرہ عدالت میں تالیاں گونج اٹھیں، فوٹو: لاہور ہائی کورٹ

 اسی دوران نیب کے وکیل نے اچانک کہا کہ ’نواز شریف جسمانی ریمانڈ پر ہیں اس لیے ان کی ضمانت نہیں لی جا سکتی۔‘ اس جملے پر اشتر اوصاف نے کہا کہ ’یہ حیران کن بات ہے کہ نیب ایسے شخص کو جسمانی ریمانڈ میں رکھنے کی بات کر رہا ہے جو زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔‘ یہ بات کرتے ہوئے اشتر اوصاف جذباتی ہو گئے اور ان کہ آواز کمرہ عدالت میں خاصی اونچی ہو گئی، اور وہ بضد تھے کہ نیب کھل کہ یہ بات کرے کہ کیا وہ یہی چاہتی ہے۔
 عدالت نے اس موقع پر ایک دفعہ پھر سماعت دس منٹ تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کے وکیل کو کہا کہ ’وہ اس بات کا جواب ہاں یا نہ میں لے کر آئیں۔‘ ٹھیک دس بجے سماعت کا چوتھی مرتبہ آغاز ہوا تو نیب کے وکیل نے کہا کہ ’وہ اس بابت واضح ہیں کہ ’نواز شریف کی ضمانت نہیں لی جا سکتی وہ جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔‘ جس کے بعد معزز بینچ نے فیصلہ سنانا شروع کیا اور پہلا جملہ ہی بولا تھا کہ ’دس پٹیشن از ایکسیپٹڈ‘ یعنی ’ضمانت کی یہ درخواست منظور کی جاتی ہے‘ تو ایک دم کمرہ عدالت میں تالیاں گونج اٹھیں۔ اس سے پہلے کہ ججز کچھ بولتے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اونچی آواز میں کہا کہ ’آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے جو تالیاں بجا رہے ہیں۔‘ بینچ کے سربراہ جسٹس علی باقر نجفی نے بھی شدید ناراضی کا اظہار کیا اور بولے کہ ’یہ کمرہ عدالت ہے کوئی جلسہ گاہ نہیں، یہاں صرف قانون کو دیکھا جاتا ہے۔‘ اس پر کمرہ عدالت میں اچانک خاموشی چھا گئی۔ معزز عدالت نے کہا کہ ’ایک ایک کروڑ کے دو ضمانتی مچلکوں کے عوض یہ درخواست منظور کی جاتی ہے۔ جس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔‘ جب تحریری فیصلہ آیا تو اس میں نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ضمانت دینے کی وجوہات کے ساتھ یہ شعر بھی درج تھا۔
مصحفی ہم تو سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
پر تیرے دل میں بہت کام رفو کا نکلا
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر:

متعلقہ خبریں