Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سانحہ ساہیوال پر اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی

وزیراعظم آفس اور وزارت داخلہ کو تین روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے، فوٹو: اے ایف پی
وزیر اعظم عمران خان نے  سانحہ ساہیوال مقدمے میں استغاثہ کی خامیوں کی تحقیقات اور ان کی نشان دہی کے لیے اعلیٰ اختیارتی کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
 جمعے کو وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے خط میں چیف سیکرٹری پنجاب اور انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس کو سانحہ ساہیوال مقدمے میں اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 
اردو نیوز کو دستیاب وزارت داخلہ کے خط کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے سانحہ ساہیوال میں ملوث ملزمان کی بریت پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
 خط میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے ، گواہوں میں سے کسی نے شہادت نہیں دی جو ایک قابل افسوس مثال ہے۔
 خط میں چیف سیکرٹری پنجاب کو فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر کے ٹھوس مقدمے کے ذریعے ملزمان کو سزا دلوانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 

اردو نیوز کو دستیاب وزارت داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط کی کاپی

اردو نیوز کے نامہ نگار زبیر علی خان کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کی خامیوں کی تحقیقات اور ان کی نشان دہی کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی قائم کی جائے۔ کمیٹی کو ریاستی اداروں کی جانب سے مقدمے کی تحقیقات میں موجود غلطیوں اور خامیوں کی نشان دہی کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ جن اقدامات کے غیر فعال ہونے سے مشتبہ افراد کو فائدہ ہوا ان کی تحقیقات کی جائے۔ خامیوں کو دور کرنے اور متاثرہ افراد کو انصاف فراہم کرنے کے لیے خصوصی تجاویز پیش کی جائیں۔
 ان ہدایات پر عمل درآمد کے حوالے سے وزیر اعظم آفس اور وزارت داخلہ کو تین روز کے اندر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ جمعرات کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان کو شک کی بنیاد پر بری کر دیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر حکومت اور عدالتی نظام پر زبردست تنقید کی جا رہی ہے۔

سانحہ ساہیوال کے ملزمان کی بریت پر ملک بھر میں سخت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے، فوٹو: سوشل میڈیا

یاد رہے کہ رواں سال جنوری میں مبینہ طور پر محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے پنجاب کے شہر ساہیوال میں ایک گاڑی پر فائرنگ کر کے چار افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
 مرنے والوں میں ایک خاتون، ان کا شوہر، ان کی کم عمر بیٹی اور ڈرائیور شامل تھے۔ اس وقت پولیس نے کہا تھا کہ یہ کارروائی ایک انٹیلی جنس اطلاع پر کی گئی، تاہم گاڑی میں موجود تین بچوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والدین کے ہمراہ ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور سے بورے والا جا رہے تھے۔
جمعرات کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو نے بتایا کہ 49 میں سے 24 گواہان پرائیویٹ تھے۔ ان میں ایک بچہ عمیر، مقتول خلیل کا بھائی جلیل اور تمام وہ لوگ جو موقعے پر موجود تھے یا جنہوں نے ویڈیوز بنائی تھیں ان تمام افراد نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔

سانحہ ساہیوال رواں برس جنوری میں پیش آیا تھا، فوٹو: اے ایف پی

 ’جب گواہ ہی منحرف ہو جائیں تو پراسیکیوشن مقدمہ کیسے ثابت کر سکتی ہے؟‘ عبدالرؤف وٹو کا کہنا تھا کہ مقدمے کے تمام کے تمام گواہان منحرف ہو گئے اس لیے ملزمان کو عدالت نے بری کیا۔
رواں برس 19 جنوری کو پیش والے اس واقعے کے بعد عوام کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اس واقعے کے خلاف احتجاج بھی ہوئے اور یہ معاملہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث رہا۔
 سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے حکومت اور عدلیہ سے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ قتل ہونے والے افراد کے رشتہ داروں نے جی ٹی روڈ پر دھرنا بھی دیا، جسے واقعے میں ’ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں‘ کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد ختم کیا گیا۔

وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے مقتولین کے بچوں کو انصاف دلانے کا وعدہ کیا تھا، فوٹو: وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ

اس واقعے پر وزیر اعظم عمران خان نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان بچوں کے لیے نہایت ہی صدمے کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے گولیاں لگتے دیکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کا خیال اب حکومت رکھے گی اور واقعے میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔
یاد رہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی قائم کی گئی تھی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں