Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سانحہ ساہیوال کیس کے تمام ملزمان بری

جنوری میں محکمہ انسداد دہشتگردی کے اہلکاروں نے پنجاب کے شہر ساہیوال میں ایک گاڑی پر گولیاں چلا کر اس میں بیٹھے چار افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
پنجاب میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ ساہیوال مقدمے کے تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال جنوری میں مبینہ طور پر محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے پنجاب کے شہر ساہیوال میں ایک گاڑی پر فائرنگ کی تھی جس میں بیٹھے چار افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ مرنے والوں میں ایک خاتون، ان کا شوہر، ان کی کم عمر بیٹی اور ڈرائیور شامل تھے۔ اس وقت پولیس نے کہا تھا یہ کارروائی ایک انٹیلیجنس اطلاع پر کی گئی۔ تاہم گاڑی میں موجود تین بچوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والدین کے ہمراہ ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور سے بورے والا جا رہے تھے۔
جمعرات کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی عدالت کے پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو نے بتایا کہ 49 میں سے 24 گواہان پرائیویٹ تھے جن میں ایک بچہ عمیر، مقتول خلیل کا بھائی جلیل اور تمام وہ لوگ جو موقعے پر موجود تھے یا جنہوں نے ویڈیوز بنائی تھیں ان تمام افراد نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔ ’جب گواہ ہی منحرف ہو جائیں تو پراسیکیوشن مقدمہ کیسے ثابت کر سکتی ہے؟‘ عبدالرؤف وٹو کا کہنا تھا کہ مقدمے کے تمام کے تمام گواہان منحرف ہوگئے اس لیے ملزمان کو عدالت نے بری کیا۔

اس وقت پنجاب کی حکومت نے ملزمان کو سزائے دینے کا وعدہ کیا تھا (فوٹو:اے ایف پی)

عدالت میں  ملزمان کے وکلا نے سرکاری گواہوں کے بیانات پر جرح مکمل کی۔  
عدالت نے مقتول ذیشان کے بھائی احتشام سمیت مجموعی طور پر 49 گواہوں کے بیان قلمبند کیے۔
 سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کے بچے عمیر،  منیبہ اور بھائی جلیل سمیت دیگر نے بھی اپنا بیان قلمبند کروایا۔  
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر 1 کے جج ارشد حسین بھٹہ کیس پر سماعت کی۔
سانحہ ساہیوال کے ملزمان میں صفدر حسین، احسن خان ،رمضان ، سیف اللہ، حسنین اور ناصر نواز عدالت میں پیش ہوئے۔
19 جنوری کو ہونے والے اس واقعے کے بعد لوگوں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا، جس پر احتجاج بھی ہوئے اور یہ معاملہ ٹوئٹر پر بھی زیرِ بحث آیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے حکام سے مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
قتل ہونے والے افراد کے رشتہ داروں نے جی ٹی روڈ پر دھرنا بھی دیا، جس کو تب ختم کیا گیا جب تک واقعے میں ’ملوث محکمہ انسداد دہشتگردی کے اہلکاروں‘ کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو گیا۔
اس واقعے پر وزیر اعظم عمران خان نے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ان بچوں کے لیے نہایت ہی صدمے کی بات ہے کہ انہوں نے اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے گولیاں لگتے دیکھا۔
ان کا کہا تھا کہ ان بچوں کا خیال اب حکومت رکھے گی۔
اس واقعے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم بھی بنی تھی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: