Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حمد اللہ کی شہریت منسوخی کافیصلہ معطل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے نادرا حکام سے کہا ہے کہ دوہفتوں میں دستاویزات کے ساتھ تفصیلی جواب جمع کرایا جائے۔ 
ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں حافظ حمد اللہ کے وکیل کامران مرتضیٰ نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے مؤکل سینیٹر رہے، سابق صوبائی وزیر رہے، چھ بار الیکشن لڑا ہے اور ان کے خاندان کے تمام افراد پاکستانی پاسپورٹ رکھتے ہیں لیکن شناختی کارڈ بلاک کر دیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس نے شناختی کارڈ بلاک کیا؟ وکیل نے جواب دیا کہ نادرا نے حافظ حمد اللہ کی پاکستانی شہریت نادرا نے ختم کر دی ہے جبکہ ان کا ایک بیٹا آرمی میں بھی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی اپنا خون اس ملک کے لیے قربان کرسکتا ہے تو وہ کیسے محب وطن شہری نہیں۔
نادرا کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ دسمبر 2018 میں پہلی بار حافظ حمد اللہ کو خط لکھ کر شناختی کارڈ بلاک کیا تھا۔ ’ضلعی سطح پر کمیٹی کو آگاہ کیا گیا تھا اور حافظ حمد اللہ اس کمیٹی میں بھی پیش ہوئے۔‘
 نادرا کے نمائندے نے کہا کہ حافظ حمد اللہ سے اس کمیٹی نے دستاویزات طلب کیں اور انہوں نے جو دستاویزات حافظ حمد اللہ نے پیش کیں وہ بوگس نکلیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نادرا کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے حافظ حمد اللہ کی شہریت بحال کر دی جبکہ وزارت داخلہ کو اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے روک دیا۔

حافظ حمد اللہ کے مطابق ان کے والد ولی محمد کو سنہ 1974 میں قومی شناخت کارڈ جاری کیا گیا۔

اس سے قبل پاکستان میں قومی شناخت کے کارڈ جاری کرنے والے ادارے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے مطابق حال ہی میں ’ایلین‘ قرار دیے گئے سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ کی قسمت کا حتمی فیصلہ اب وزارت داخلہ کرے گی جبکہ اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما نے کہا کہ ان کے باقی سارے آٹھ بھائی، والد اور والدہ پاکستانی شہری ہیں تو وہ کیسے افغان ہو گئے؟
نادرا کے ترجمان فائق حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ اتھارٹی نے حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ بلاک کر کے ان کی شہریت منسوخ کر دی ہے اب معاملہ وزارت داخلہ میں ہے جہاں حافظ حمداللہ کی اپیل کی سماعت ہو گی۔
ترجمان کے مطابق سیکرٹری داخلہ سماعت کے بعد حتمی فیصلہ کریں گے اور اگر انہوں نے حافظ حمداللہ کی شہریت بحال کرکے نادرا کو لکھا تو ان کا شناختی کارڈ بحال کر دیا جائے گا۔ تاہم نادرا ترجمان کا کہنا تھا کہ حافظ حمداللہ کے خلاف کارروائی نادرا نے از خود شروع نہیں کی تھی بلکہ ان کے حوالے سے رپورٹ ملی تھی جس کے بعد ان کا کارڈ منسوخ کیا گیا تھا۔ ترجمان کے مطابق کارڈ بلاک کرنے کا دھرنے سے کوئی تعلق نہیں کیوں کہ یہ فروری 2019 میں کیا گیا تھا۔
دوسری طرف اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں حافظ حمداللہ نے کہا کہ وہ پاکستان کے آئین کی وفاداری کا متعدد بار حلف اٹھا چکے ہیں اس لیے وہ قانون کا راستہ اختیار کریں گے اور وزارت داخلہ میں اپنی اپیل پر کارروائی کا انتظار کریں گے۔ اور اگر ان کے حق میں فیصلہ نہ ہوا تو عدالت کا دروازہ کھٹکٹائیں گے۔
تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ ان کو حکومت کے خلاف بولنے کی سزا دی جا رہی ہے کیونکہ ان کی شہریت میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ ’میں سنہ 1968 میں چمن میں پیدا ہوا جہاں میرے والد پڑھاتے تھے۔ پھر پرائمری بھی وہیں سے پڑھی اور حفظ کیا۔ اس کے بعد میٹرک، ایف اے سب یہاں سے کیا۔ زندگی میں صرف ایک بار آفغانستان چند دن کے لیے گیا جب وہاں طالبان کی حکومت تھی۔‘

حافظ حمد اللہ نے پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا کے رکن کے طور پر کئی غیر ملکی دورے کیے۔ فوٹو: اے ایف پی

حافظ حمد اللہ نے کہا کہ جب وہ پیدا ہوئے تو خوشی میں والد کے ایک شاگرد نے دو فائر کیے وہ شخص آج بھی زندہ ہے اور گواہ ہے۔ اسی طرح ان کے پرائمری کے استاد بھی بقید حیات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھٹو دور میں سنہ 1973 میں شناختی کارڈ بننے شروع ہوئے تب ان کے والد اور والدہ نے 1974 میں قومی شناختی کارڈز بنوا لیے تھے جبکہ والد نے نیشنل بینک میں اپنا اکاونٹ سنہ 1968 میں کھول لیا تھا اور تمام دستاویزات اب تک موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے آٹھ دیگر بھائی نادرا کے شناختی کارڈ رکھتے ہیں اور پاکستانی شہری ہیں تو وہ کیسے افغان ہو گئے۔ 
ایک سوال کے جواب حافظ حمداللہ کہا کہ ان کے سارے بیٹے زیر تعلیم ہیں تاہم ایک بیٹا آرمی میں بھرتی ہو گیا ہے اور اس وقت کاکول میں زیر تربیت ہے۔
انہوں نے پیمرا کی طرف سے ان کے ٹی وی پروگراموں میں آنے پر پابندی کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں پاکستانی شہری نہ بھی ہوتا تو ٹی وی پر آنے سے پاکستان کا قانون کسی طرح مانع نہ تھا۔  انہوں نے کہا کہ ٹی وی پر تو ٹی ٹی پی رہنما احسان اللہ احسان بھی آئے ہیں، بھارتی جاسوس کلبھوشن اور بھارتی گرفتار پائلٹ ابھینندن بھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سابق وزیراعظم معین قریشی اور شوکت عزیز کو بیرون ملک سے لا کر شناختی کارڈز بنا کر دیے گئے مگر مجھے پاکستان میں پیدا ہونے پر بھی مشکوک بنا دیا گیا۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اپنی جماعت کے مارچ میں شریک ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی اسلام آباد انتظامیہ کے ساتھ معاہدے کا پاس کرے گی اور احتجاج ڈی چوک پر نہیں بلکہ کشمیر ہائی وے پر ہو گا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: