Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کی ایران پر مزید معاشی پابندیاں

ایرانی جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد امریکہ نے ایران پر مزید معاشی پابندیاں لگا دی تھیں۔ فوٹو اے ایف پی
امریکہ نے ایرانی پاسداران انقلاب سے جڑے تعمیراتی شعبے پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ حالیہ معاشی پابندیوں کے ذریعے ایسے سٹریٹجک مواد کو بھی ہدف بنایا جائے گا جو ایران کے جوہری، ملٹری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کے سلسلے میں استعمال ہوتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے تعمیراتی شعبہ پر پابندیاں لگانے کی وجہ پاسداران انقلاب کا اس شعبے کو بلواسطہ یا بلاواسطہ کنٹرول کرنا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن آرٹاگس کا کہنا تھا کہ حالیہ پابندیاں ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی، اس کے پھیلاؤ سے بچاؤ، اور ایران کی جوہری ہتھیاروں کے حصول میں رکاوٹ بنیں گی۔
ترجمان مورگن آرٹاگس نے مزید کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں لگانے کا مقصد ایرانی پاسداران انقلاب کو سٹریٹجک مواد کے حصول سے روکنا ہے۔
گزشتہ سال امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ کے 2015 کے ایرانی جوہری معاہدے سے لاتعلقی کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی مزید بڑھ گئی تھی، جس کے بعد امریکہ نے ایران پر مزید معاشی پابندیاں لگا دی تھیں۔

امریکہ کی علیحدگی کے باوجود یورپی ممالک جوہری معاہدے کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فوٹو سوشل میڈیا

رواں سال مئی میں ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ تہران جوہری معاہدے کے کچھ حصوں پر مزید عمل درآمد نہیں کرے گا اور معاشی پابندیوں میں ریلیف نہ ملنے پر متعلقہ پارٹیوں کو بھی خبردار کیا تھا کہ ایران جوہری پروگرام کو مزید آگے بڑھائے گا۔ 
جولائی میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ ایران نے یورینیم کے افزودہ ذخائر کی حد پار کر لی ہے جو 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ اس کے جوہری معاہدے کے تحت طے کی گئی تھی۔ ایران کی یورینیم کے ذخائر میں اضافے کی تصدیق اقوام متحدہ کے ایٹمی معاملات کے نگران ادارے نے بھی کر دی تھی۔ 
ایٹمی معاہدے کی شرائط کے تحت ایران نے یورینیم کے ذخائر تین سو کلو گرام سے کم رکھنے پر اتفاق کیا تھا، جبکہ یورنیم کو زیادہ سے زیادہ 3.67 فیصد تک افزودہ کیا جا سکتا ہے۔
2015 کے ایٹمی معاہدے پر ایران، امریکہ، چین، روس، جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اتفاق کیا تھا۔
امریکہ کے جوہری معاہدے سے علیحدگی کے باوجود یورپی ممالک معاہدے کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شیئر: