Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’معاملات خطرات کی طرف جا سکتے ہیں‘

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ان کے ’آزادی مارچ‘ کے شرکا کی تعداد کل تک مزید بڑھے گی اور اگر حکومت نے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ نہ مانا تو معاملات خطرات کی طرف جا سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں اپنے احتجاجی کنٹینر پر اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو ہٹانے کے لیے تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنا ہوگی۔
ان سے پوچھا گیا کہ اگر حکومت وزیراعظم کے استعفے کی بات نہیں مانتی تو کیا ہوگا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ’تو بہرحال معاملات خطرات کی طرف جا سکتے ہیں۔‘
مولانا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کے نہ ماننے کی صورت میں اگلے قدم کا فیصلہ اپوزیشن کے ساتھ مشاورت سے کریں گے۔ تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ پورے ملک میں ان کی جماعت کے جتنے بھی ملین مارچ ہوئے ہیں پرامن رہے ہیں۔
’اب پورے ملک سے قافلے پرامن آئے ہیں۔ ابھی بھی قافلے آ رہے ہیں اور کل بھی آئیں گے۔ اس اجتماع میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا تو اس اعتبار سے بڑا اچھا ایک نظام جا رہا ہے سب لوگ پرامن ہیں اور قیادت کے فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمان کے مطابق ’اگر حکومت جابر ہو اور جبرا قوم پر مسلط ہو اور وسائل ان کے ہاتھ میں ہوں، حکومتی وسائل کو ناجائز طور پر استعمال کر رہے ہوں تو اس کو اکھاڑنے کے لیے پھر تھوڑی سی تکلیف تو برداشت کرنا پڑے گی اور اس کے لیے ہم تیار ہیں۔‘
جب ان سے اسلام آباد میں ان کے مارچ میں افغان طالبان کے جھنڈوں کی موجودگی کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ طالبان کو اسلام آباد میں صدارتی پروٹوکول دیا گیا تو ان کے جلسے میں ایک غریب افغانی کے آنے سے کونسی قیامت ٹوٹ پڑی؟

’غیر جمہوری حکومت کو ہم پر مسلط نہیں رہنا چاہیے اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔‘ فوٹو: اردو نیوز

’کیا طالبان کا استقبالیہ نہیں کرتے یہاں پاکستان میں؟ ان کو اس دفعہ یہاں ان (افغان طالبان وفد) کو صدارتی پروٹوکول دیا گیا ہے۔‘
اس کے علاوہ انہوں نے امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے بھی افغان طالبان کو پروٹوکول دینے کا ذکر کیا۔ ’امریکہ ان کو پروٹوکول نہیں دے رہا ہے؟ روس میں ان کا استقبال نہیں ہو رہا؟ اگر ایک غریب افغانی یہاں آگیا اور جھنڈا بھی لے آیا ( تو کیا ہوا)؟‘
جے یو آئی (ف) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کے طالبان کی تنظیم کے سیاسی موقف کی تو ہم پہلے ہی تائید کر رہے ہیں۔ گو کہ ہم اس ملک کے نہیں ہیں ان کی حکمت عملی کے ساتھ ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن دنیا میں جس طرح ہم فلسطینیوں کے موقف کی یہاں سے حمایت کرتے ہیں یہاں عراق میں اور لیبیا میں ہم سپورٹ کرتے ہیں، یہاں بھی ہمارا اسی طرح کا موقف رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت سارے افغانی رہتے ہیں ان میں سے کوئی مارچ میں آگیا ہو گا جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مولانا کہ مطابق حکومت کے نہ ماننے کی صورت میں اگلے قدم کا فیصلہ اپوزیشن کے ساتھ مشاورت سے کریں گے۔ فوٹو: روئٹرز

اداروں کو دیے گئے دو دن کے الٹی میٹم کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اداروں کے ساتھ تصادم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
’اداروں کے ساتھ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ غیر جمہوری حکومت کو ہم پر مسلط نہیں رہنا چاہیے اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔‘
واضح رہے کہ ’آزادی مارچ‘ جمعرات 31 اکتوبر کی رات کو اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔ گذشتہ روز اپوزیشن کی جماعتوں کے رہنماؤں اور مولانا فضل الرحمان نے مارچ کے شرکا سے خطاب کیا تھا۔
اپنے خطاب کے دوران انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو دن کی مہلت دی تھی۔

شیئر: