Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میں چار سال قبل مر گیا تھا، مجھے جیل سے رہا کیا جائے‘

بنجامن شریبر کو ایک آدمی قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
امریکی ریاست لووا کی ایک جیل میں قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے ایک قیدی نے عدالت کے سامنے اپنی رہائی کے لیے اپیل میں انوکھی منطق پیش کرتے ہوئے عدالت سے درخواست کی ہے کہ انہیں رہا کیا جائے کیونکہ چار برس قبل ان کی ’موت‘ واقع ہو گئی تھی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنجامن شریبر کو 1990 میں ایک آدمی کو ڈنڈے مار کر قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا ہوئی تھی، لیکن 2015 میں ان کے گردوں میں پتھری کی وجہ سے ان کے جسم میں زہر پھیل گیا تھا۔
انہیں بے ہوشی کی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں کے مطابق انہیں ایک ’مردہ‘ شخص کو زندہ کرنے کے لیے پانچ بار کوشش کرنا پڑی۔ اس کے بعد انہوں نے آپریشن کر کے بنجامن کے گردوں کا علاج کیا۔ اس کے بعد انہیں واپس جیل پہنچا دیا گیا۔

2015 میں ان کے گردوں میں پتھری کی وجہ سے ان کے جسم میں زہر پھیل گیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

بنجامن نے 2018 میں عدالت میں دائر کی گئی اپیل میں دعوی کیا کہ ’میں چار برس قبل کچھ لمحوں کے لیے مر چکا تھا لہذا میری سزا تکنیکی بنیادوں پر ختم ہو چکی ہے، مجھے رہا کیا جائے۔‘
تاہم ڈسٹرکٹ کورٹ نے بنجامن کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اپیل ’ناقابل یقین ہے اور میرٹ پر پورا نہیں اترتی۔‘
بنجامن کے وکیل نے ڈسٹرکٹ کورٹ کی اس رولنگ کے بعد یہ کیس اپیل کورٹ میں لے گئے اور اس اپیل کورٹ نے بھی بنجامن کے اس دعوے کو ماننے سے انکار کیا۔
جج نے کہا کہ دو ہی صورتیں پیدا ہوتی ہیں ’ایک یہ کہ بنجامن زندہ ہیں اور انہیں اپنی سزا مکمل کرنی چاہیے، اور دوسری یہ کہ وہ مر چکے ہیں اور اس بات پر بحث ہو سکتی ہے۔‘

عدالت نے کہا ہے کہ یہ اپیل ’ناقابل یقین ہے اور میرٹ پر پورا نہیں اترتی۔‘ فوٹو: اے ایف پی

عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ یہ کہنا کہ وہ مر چکے ہیں ’غیر حقیقی‘ محسوس ہوتا ہے کیونکہ اس کیس کی درخواست پر انہوں نے خود دستخط کیا ہیں۔
بنجامن کی اپیل کے تابوت میں آخری کیل لگاتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ان کی سزا اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کوئی ڈاکٹر یہ لکھ کر نہ دے کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔

شیئر: