Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’نام کس قانون کے تحت ای سی ایل میں؟‘

عدالت نے جمعے تک وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی (فوٹو:اے ایف پی)
لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں وفاقی حکومت نے کس قانون کے تحت نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے شرائط طے کیں، کونسا قانون وفاقی حکومت کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے شرائط طے کرے۔
لاہور میں اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق جمعرات کو لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے مسلم لیگ ن کی درخواست پر سماعت کی۔
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ سے نواز شریف کی بیماری کی بنیاد پر ضمانت منظور ہو چکی ہے جبکہ ضمانت منظور ہونے کے باوجود وفاقی وزارت داخلہ نے نام ای سی ایل سے نہیں نکالا۔
امجد پرویز نے کہا کہ نواز شریف سزا یافتہ ہونے کے باوجود بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر بیٹی کے ساتھ پاکستان واپس آئے، ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کرتے ہوئے ای سی ایل سے نکالنے کے حوالے سے کوئی قدغن نہیں لگائی، وفاقی کابینہ نے ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست پر شرائط عائد کر دی ہیں لہذا نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جائے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ حکومت نے کیا آرڈر کیے ہیں۔ امجد پرویز نے بتایا کہ حکومت نے ایک دفعہ باہر جانے کی اجازت دی ہے اور ساتھ یہ شرط عائد کی ہے کہ ساڑھے سات ارب روپے کا اینڈمنیٹی بانڈ جمع کروایا جائے۔ انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ سابق وزیر اعظم کے کچھ میڈیکل ٹیسٹ ایسے ہیں جو پاکستان میں میسر نہیں۔

عدالت نے حکومتی وکیل کے دلائل کو رد کر دیا کہ یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ سماعت میں ہے فوٹو: سوشل میڈیا

وکیل کے مطابق وفاقی کابینہ نے نواز شریف کی طبی رپورٹس مانگی تھیں جس میں سرکاری میڈیکل بورڈ نے ان کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کا مشورہ دیا تھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل میں ہے؟ امجد پرویز نے بتایاکہ شہباز شریف کا نام بھی ای سی ایل میں تھا لیکن ہائی کورٹ ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم پہلے ہی دے چکی ہے۔
دوسری طرف وفاقی حکومت کے وکیل اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھا دیا۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ سماعت میں ہے تاہم عدالت نے اس اعتراض کو رد کر دیا۔
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں وفاقی حکومت نے کس قانون کے تحت نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے شرائط طے کیں کون سا قانون وفاقی حکومت کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے شرائط طے کرے ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایااس حوالے جواب جمع کروانے کے لیے مہلت دی جائے۔
جسٹس علی باقر نجفی نےامجد پرویز ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف بیرون ملک جانا بھی چاہتے ہیں یا نہیں ؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ ہدایات لے کر جواب جمع کروائیں گے۔
لاہور ہائی کورٹ نے جمعہ پندرہ نومبر تک وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

’حکومت انڈیمنٹی بانڈ کی آڑ میں تاوان وصول کرنا چاہتی ہے‘

 اس سے قبل  مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا  کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے لیے انڈیمنٹی بانڈ مانگنے کی آڑ میں حکومت تاوان وصول کرنا چاہتی ہے اور ایسا کسی صورت نہیں کریں گے۔
انہوں نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ’سلیکٹڈ وزیر اعظم ڈیڑھ سال سے بھاشن دے رہے ہیں کہ این آر او نہیں دوں گا اور اب وہ اس انڈیمنٹی کے ذریعے عوام کو دھوکے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ چھ جولائی 2018 کو نوازشریف کی صاحبزادی کے خلاف ٹرائل کورٹ نے فیصلہ دیا تو نوازشریف لندن میں اپنی اہلیہ کی تیمار داری کررہے تھے۔ 13 جولائی کو مریم نواز کا ہاتھ تھامے نوازشریف پاکستان آئے اور بیٹی کے ساتھ اڈیالہ جیل میں بند کر دیے گئے کیا اس وقت شورٹی بانڈ دیا تھا؟
انھوں نے باور کرایا کہ عدالت نے ان کی ضمانت دی ہے تو پھر حکومت اس پر سیاست کرے تو اس سے کوئی اور خرابی کی بات ہو سکتی ہے اور یہ بانڈ اس شخص نے مانگا جا رہا ہے جو تین مرتبہ وزیر اعظم رہا۔ 
دوسری طرف وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ن لیگ والے نواز شریف کی صحت کے قانونی معاملے کو خوا مخواہ سیاست کی نذر کر رہے ہیں، سیدھی بات ہے وہ ضمانتی بانڈ دیں اور علاج کے لیے چلے جائیں۔

شہباز شریف نے کہا کہ  انڈیمنٹی کے ذریعے عوام کو دھوکے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں فوٹو:اردو نیوز

شہباز شریف نے کہا کہ 60 کی دہائی میں خون پسینے کی کمائی سے لوہے اور انجنیئرنگ کا کارخانہ بھٹو دور میں قومیایا گیا جو تباہ ہو گیا، اس کے باوجود بھی نواز شریف نے ایک دھیلہ معاف نہیں کروایا۔
مسلم لیگ ن کے صدر نے نوازشریف کی صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت ہوگی، بیس دن سے زائد گزر چکے نوازشریف کی صحت پر چھوٹا ذہن رکھنے والے عمران خان اور ٹیم نے سیاسی کھیل مچا رکھا ہے۔
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ این آر او کی تکرار کرنے والے تو این آر او نہ دے سکتے ہیں نہ لے سکتے ہیں۔

 

شیئر: