Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈونیشیا: حاملہ خواتین کی ملازمت پر پابندی

انڈونیشیا میں ان دنوں ہزاروں سرکاری نوکریوں کے لیے درخواستیں وصول کی جا رہی ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)
انڈونیشیا میں کئی وزارتوں نے حاملہ خواتین، معذور افراد اور خواجہ سراؤں کو ملازمتیں دینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا کے محتسب کے ادارے کا کہنا ہے کہ ملک کی کئی وزارتوں نے حاملہ، معذور اور خواجہ سراؤں کو ’نارمل افراد‘ کے مقابلے میں ملازمتیں دینے پر پابندی عائد کی ہے۔
انسانی حقوق کے ایک ادارے نے وزارتوں کی جانب سے اس پابندی کو یکطرفہ اور منافرت پر مبنی قرار دیا ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک دو لاکھ سول سروس کی ملازمتوں کے لیے لاکھوں درخواستیں وصول کر رہا ہے۔
26 کروڑ آبادی والے انڈونیشیا میں خواجہ سراؤں اور ہم جنس پرست افراد کے ساتھ امتیازی سلوک میں حالیہ دنوں کے دوران اضافہ ہوا ہے جبکہ انہیں دفاتر اور کام کی دیگر جگہوں پر بھی جنسی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جمعے کو انڈونیشیا کے ادارہ برائے احتساب کے کمشنر نینک راہایو کا کہنا تھا کہ ایک انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وزارت دفاع، تجارت اور اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے ملازمتوں کے اشتہارات میں مختلف امیدوروں سے تفریق برتی جا رہی ہے۔
وزارت دفاع نے حاملہ خواتین پر ملازمتوں کے لیے درخواست دینے پر پابندی عائد کی ہے جبکہ اے جی آفس اور وزارت تجارت نے خواجہ سراؤں پر پابندی لگائی ہے۔
کمشنر کے مطابق اے جی آفس نے ’منافرت پر مبنی بیان‘ بھی جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ہم صرف نارمل لوگوں کو قبول کرتے ہیں۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پابندی کو منافرت پر مبنی پالیسی کے مترادف قرار دیا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

ان کا کہنا تھا کہ کسی پر نوکری کے لیے اپلائی کرنے پر اس لیے پابندی لگانا کہ وہ حاملہ یا خواجہ سرا ہے، ناقابل قبول ہے۔
محتسب کے ادارے نے وزارتوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی بھرتی کی پالیسیوں کو تبدیل کریں۔ تاہم محتسب کمشنر کا کہنا ہے کہ صرف وزارت تجارت نے اب تک ان کے احکامات پر عمل کیا ہے۔
جمعرات کو اے جی آفس کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اے جی آفس نے خواجہ سراؤں اور ہم جنس پرستوں پر پابندی ’نارمل لوگوں‘ کے حق میں لگائی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈونیشیا کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عثمان حامد کا کہنا ہے کہ پابندی منافرت پر مبنی پالیسی کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈونیشیا کو اپنی سول سروس میں سب سے بہترین اور قابل ترین امیدواروں کو بھرتی کرنا چاہیے نہ کہ یکطرفہ اور منافرت پر مبنی پابندیاں عائد کریں۔

محتسب کے ادارے نے وزارتوں سے کہا ہے کہ وہ اپنی ہائرنگ پالیسیوں کو تبدیل کریں (فوٹو: سوشل میڈیا)

انہوں نے مذکورہ اداروں پر زور دیا کہ وہ ان ضوابط کو تبدیل کریں۔
عثمان حامد کے مطابق ’یہ نہ صرف انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے قوانین کے خلاف ہے بلکہ انڈونیشیا کے آئین سے بھی متصادم ہے۔‘
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: