Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں غیر قانونی پارکنگ کا ’کاروبار‘ کیسے ہوتا ہے؟

محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں پارکنگ کی مد میں روزانہ ایک کروڑ سے زائد آمدنی ہوتی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
سندھ ہائی کورٹ نے کراچی کے شہریوں سے غیر قانونی پارکنگ فیس کی وصولی کے خلاف دائر درخواست پر میئر، کمشنر اور ڈی آئی جی ٹریفک کراچی سمیت دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا ہے۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس کوثر سلطانہ پر مشتمل عدالت عالیہ کے دو رکنی بینچ نے منگل کے روز کراچی ’چارجڈ پارکنگ مافیا‘ کے خلاف گلوبل فاؤنڈیشن کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ کراچی کے شہریوں سے غیر قانونی اور اضافی چارجڈ پارکنگ فیس وصول کی جارہی ہے اور اس ’مافیا‘ نے پورے شہر پر قبضہ جما لیا ہے۔

 

عدالتی بینچ نے میئر کراچی، کمشنر کراچی، ڈی آئی جی ٹریفک، ڈائریکٹر چارجڈ پارکنگ کے ایم سی، ڈائریکٹر چارجڈ پارکنگ ڈی ایم سی ساؤتھ سمیت دیگر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں اگلی سماعت پر طلب کرلیا۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ کے ایم سی کی جانب سے موٹر سائیکل کی قانونی فیس پانچ روپے جبکہ ڈی ایم سی کی جانب یہ رقم 10 روپے ہے، تاہم ’پارکنگ مافیا‘ پورے شہر میں زبردستی بائیک پارکنگ کے 20 روپے وصول کرتا ہے۔

پارکنگ ’مافیا‘ آخر ہے کیا؟

کراچی کے کسی بھی علاقے میں چلیں جائیں، کہیں بھی جا کر کسی شاپنگ مال، مارکیٹ یا گلی میں بھی گاڑی پارک کر دیں تو کوئی نہ کوئی چھلاوے کی صورت نمودار ہوگا، خود کو اس سڑک کا ’ذمہ دار‘ ظاہر کرے گا اور آپ کو پابند کرے گا کہ آپ گاڑی پارک کرنے کی فیس ادا کریں۔
شہر کے تمام شاپنگ مال، کاروباری مراکز، دفاتر، مارکیٹس اور تفریحی مقامات کے قریب ’پارکنگ مافیا‘ کا راج ہے، جو ایک باضابطہ طور پر وضع کردہ نظام کے تحت اپنا دھندہ کرتے ہیں جس میں انہیں مبینہ طور پر سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی اور ساتھ حاصل ہوتا ہے۔
آئیں آپ کو بتاتے ہیں کہ ’پارکنگ مافیا‘ کام کیسے کرتا ہے۔
کراچی کے کاروباری مرکز صدر کے وسط میں واقع ہے پاسپورٹ آفس کی مثال لے لیتے ہیں۔ پاسپورٹ آفس سندھ ہائی کورٹ کے عقب میں واقع ہے، اس سے متصل صدر کی صرافہ مارکیٹ ہے، یہاں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگ گاڑیوں میں آتے ہیں۔ پاسپورٹ آفس کے سامنے نیب اور ایف آئی اے کے دفاتر بھی ہیں۔

پارکنگ سپاٹ میں موٹر سائیکل کی  پارکنگ فیس 10 روپے سے زیادہ نہیں لیکن ہر جگہ زبردستی 20 روپے لیے جاتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

حکومت کی جانب سے یہاں نو پارکنگ کے بورڈ آویزاں ہیں اور ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے لیے سڑک پر گاڑی پارک کرنے کی بھی سخت ممانعت ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو گاڑیاں یہاں روز آتی ہیں وہ پارک کہاں ہوں۔ حکومت کی جانب سے پارکنگ کا کوئی متبادل اور معقول انتظام نہیں۔
اس سب میں آپ کی مدد کو ’پارکنگ مافیا‘ آتا ہے، آپ ویسے گاڑی یا موٹر سائیکل اس سڑک پر پارک کرکے جائیں تو ٹریفک پولیس اہلکار اسے اٹھا لے جائیں گے، مگر وہیں پر اگر آپ غیر قانونی پارکنگ کا کاروبار چلانے والے کسی کارندے کو کہہ دیں تو اسی جگہ پورا دن گاڑی کھڑی رہے گی، کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں پارکنگ کی مد میں روزانہ ایک کڑوڑ سے زائد آمدنی ہوتی ہے۔
اوپر بیان کیا گیا بزنس ماڈل تقریباً تمام کراچی میں رائج ہے، کاروباری مراکز اور دفاتر کے قریب ہر سڑک پر غیر قانونی پارکنگ فیس وصول کی جا رہی ہے جس کی کوئی لکھت پڑھت نہیں ہوتی۔ شہر کے جن مقامات پر انتظامیہ کی جانب سے پارکنگ فیس لاگو کی گئی ہیں، وہاں بھی ’پارکنگ مافیا‘ زائد فیس وصول کرتا ہے۔
 شہر کے کسی بھی پارکنگ سپاٹ پر موٹر سائیکل کی متعین کردہ پارکنگ فیس 10 روپے سے زیادہ نہیں، لیکن ہر جگہ زور زبردستی کر کے 20 روپے لیے جاتے ہیں ورنہ بائیک اٹھوائے جانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ صدر میں واقع موبائل مارکیٹ کے اطراف میں ایک وقت میں ہزار سے زائد موٹر سائیکل سڑک پر پارک ہوتی، جو کہ سراسر غیر قانونی ہے۔ اس علاقے میں ٹریفک پولیس کا لفٹنگ سکواڈ بھی خاصا متحرک ہے، مگر وہ صرف وہی بائیک اٹھاتا ہے جس کی نشاندہی غیر قانونی پارکنگ کا کاروبار کرنے والوں کے کارندے کرتے ہیں۔

میئر کراچی وسیم اختر نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ شہر میں غیر قانونی پارکنگ فیس وصول کی جارہی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

ایک کسٹمر عثمان نے بتایا ان کا ہفتے میں ایک بار موبائل مارکیٹ آنا ہوتا ہے، ہر بار وہ بائیک پارکنگ کے 20 روپے دیتے ہیں جس کی کوئی رسید نہیں ملتی بس پارکنگ والا بائیک پر چاک سے ایک نشان لگا دیتا ہے، جب ٹریفک پولیس کی گاڑی آتی ہے، تو وہ صرف ان موٹر سائیکل کو اٹھاتی ہے جن پر چاک کا نشان نہ لگا ہو۔
پارکنگ کروانے والے لوگوں سے جب بات کی گئی تو ان کا بس ایک ہی جواب تھا کہ وہ تو غریب مزدور ہیں، انہیں تو ٹھیکےدار نے اس کام پر رکھا ہے جس کی انہیں روزانہ کے حساب سے اجرت ملتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹھیکے دار کی جانب سے روزانہ کی کمائی کا ٹارگٹ بھی متعین کیا جاتا ہے، اور اگر دن کے اختتام پر مذکورہ رقم سے کم کمائی ہو تو اسے دیہاڑی میں سے پورا کرنا پڑتا۔
’پارکنگ مافیا‘ کے خلاف متعدد بار کاروائی کی گئی ہے مگر اس کا سدباب اس لیے ممکن نہیں کیوں کہ شہریوں کو پارکنگ کی متبادل سہولت میسر نہیں۔
گلوبل فاؤنڈیشن کے سربراہ محمد احمد داؤد کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد عدالت کے ذریعے عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے کیونکہ دیگر تمام تر حربے بے کار گئے ہیں۔
محمد احمد داؤد نے اردو نیوز کو بتایا کہ شہری اور صوبائی حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام رہی ہے اور متعدد بار یقین دہانی کے باوجود شہر میں پارکنگ کے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالا جا سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پارکنگ مافیا‘ شہریوں سے روزانہ ڈیڑھ کروڑ روپے اضافی وصول کر رہا ہے۔ ادارے کی جانب سے متعلقہ ڈی ایم سی کے ڈائریکٹر چارجڈ پارکنگ کو قانونی نوٹس بھی بھجوائے گئے ہیں۔

کراچی میں میں اس وقت دو سو سے زائد مقامات پر باضابطہ طور پر پارکنگ فیس وصول کی جارہی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

علاوہ ازیں، گلوبل فاؤنڈیشن کی جانب سے غیر قانونی پارکنگ کے کارندوں کے خلاف پریڈی تھانہ میں ایف آئی آر بھی درج کروائی گئی ہے۔
میئر کراچی وسیم اختر نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ شہر میں غیر قانونی پارکنگ فیس وصول کی جارہی ہے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ شہری حکومت کے زیرِ انتظام پارکنگ ایریا میں موٹر سائیکل اور گاڑی کی پارکنگ فیس بالترتیب پانچ اور 20 روپے ہے۔ میئر کراچی نے اپیل کی کہ شہری اس سے زیادہ رقم ادا نہ کریں۔
ان کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مختلف ادارے پارکنگ فیس وصول کر رہے ہیں جب کہ ان کے پاس ایسا کرنے کا قانونی اختیار نہیں۔ میئر کراچی نے بتایا کہ شہری علاقوں میں پارکنگ فیس کی وصولی کا اختیار صرف کے ایم سی کو ہے، اور دیگر ادارے ایسا کرنے کے لیے کے ایم سی سے اجازت لینے کے پابند ہیں۔
شہر قائد میں اس وقت دو سو سے زائد مقامات پر باضابطہ طور پر پارکنگ فیس وصول کی جارہی ہے جب کہ کے ایم سے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس صرف 36 پارکنگ سپاٹس ہیں، باقی غیر قانونی ہیں۔ ٹھیکے داروں کے حوالے سے کے ایم سی حکام نے بتایا کہ ان کی جانب سے ٹھیکے داروں کی سکروٹنی کی جاتی ہے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ٹھیکے داروں کا کنٹریکٹ منسوخ کردیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق گذشتہ مالی سال کے اختتام پر 19 ٹھیکے داروں کو بلیک لسٹ کر کے نئے ٹھیکے داروں سے معاہدہ کیا گیا۔

شیئر: