Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈھکی چھپی‘ ہراسانی کے خلاف اقدام

یوٹیوب اور ایسے دوسرے پلیٹ فارمز کو کچھ عرصے سے زور دیا جا رہا ہے کہ وہ نفرت آمیز مواد کے خلاف کارروائی کریں فوٹو: اے ایف پی
دنیا بھر میں ویڈیوز دیکھنے اور شئیر کرنے والے پلیٹ فارم یوٹیوب نے ہراسانی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ انتظامیہ یوٹیوب پر ایسے کسی مواد کی اجازت نہیں دے گی جس سے کسی کی جنس یا نسل کی بنیاد پر ’ڈھکے چھپے‘ طریقے سے ان کی توہین کی جائے۔
ایک آن لائین پیغام میں یوٹیوب کے عالمی سربراہ میٹ ہیلپرن نے کہا ہے کہ یہ پابندی سب ہر لاگو ہوتی ہے، خواہ وہ عام افراد ہوں یا حکومتی افسران۔‘
ان کے مطابق یوٹیوب انتظامیہ نے پہلے سے کھلے عام دی جانے والی دھمکیوں اور نفرت آمیز مواد پر پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن اب ’ڈھکی چھپی‘ دھمکیوں کو بھی ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

 

’اس میں وہ مواد شامل ہے جو کسی شخص پر تشدد کرنے کے عمل کے لیے اکسائے یا ایسے کسی امر کی حمایت کرتا ہو۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوٹیوب نے رواں سال کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ وہ ویڈیو بنانے والوں کی جانب سے ہراسیت  کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے گا۔
یوٹیوب اور ایسے دوسرے پلیٹ فارمز کو کچھ عرصے سے زور دیا جا رہا ہے کہ وہ نفرت آمیز مواد کے خلاف کارروائی کریں۔
سوشل میڈیا کی جانب سے نفتر آمیز مواد لگانے کے اقدامات پر امریکہ میں کچھ دائیں بازو کے کارکنان نے تنقید کی ہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز قدامت پسند نظریوں کو دبا رہے ہیں۔

یوٹیوب نے رواں سال کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ وہ ویڈیو بنانے والوں کی جانب سے ہراسانی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے گا فوٹو: اے ایف پی

یوٹیوب پر ماضی میں کچھ حلقوں کی جانب سے ’غیر مناسب‘ مواد لگانے کا بھی الزام رہا ہے۔
رواں برس جون میں کچھ حفاظتی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یوٹیوب پر بچوں کے نازیبا مواد دیکھنے کا خدشہ ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان حلقوں کا کہنا تھا کہ گوگل کو چاہیے کہ بچوں سے متعلق تمام ویڈیوز ایک الگ یوٹیوب ایپ میں ڈال دے، تاکہ بچے نازیبا مواد دیکھنے سے محفوظ رہیں۔
واضح رہے کہ گوگل یوٹیوب کو چلاتا ہے۔
بچوں کی حفاظت پر کام کرنے والے ایک گروپ کے مینیجر ڈیوڈ موناہان کا کہنا تھا، ’ہمیں لگتا ہے کہ یوٹیوب کو اپنے کام کے طریقوں میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔‘

شیئر: