Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یقین تھا کہ ایک دن میرا وقت بھی آئے گا‘

وہ بارہ سال ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر 106 فرسٹ کلاس میچز میں 7116 رنز بنا ڈالے اور گذشتہ تین سیزن کے دوران 57.43  کے متاثر کن اوسط سے رنز بنائے۔ دو سال تک قومی کرکٹ ٹیم میں شمولیت کی دوڑ میں شریک رہنے کے بعد عابد علی بالا آخر ایک تاریخی موقع پر پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ میچ کھیلنے میں اس وقت کامیاب ہوئے جب 10 سال کے وقفے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ کی پاکستان آمد ہوئی۔
کئی ایک پاکستانی کھلاڑیوں کی طرح عابد علی نے اپنے فرسٹ کلاس کرکٹ کیریئر کا آغاز ایک ایسے وقت کیا جب پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو رہی تھی۔ عابد علی نے 31 سال کی عمر میں اپنے اولین ٹیسٹ کو اس وقت یادگار بنا دیا جب انہوں نے سری لنکا کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ میں سینچری سکور کی۔ اس کے ساتھ ہی عابد علی نے کرکٹ کی تاریخ میں اپنے اولین ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں میں سینچری سکور کرنے والے پہلے کرکٹر ہونے کے منفرد اعزاز کو اپنے نام کر لیا۔

 

معروف کرکٹ ویب سائٹ ’کرک انفو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سخت محنت اور استقامت نے میری کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔‘
خیال رہے عابد ایک سال سے زائد عرصے سے قومی ٹیم میں شامل تھے لیکن وہ پلیئنگ الیون میں جگہ بنانے میں ناکام رہے تھے۔ جب پاکستان نے اپنے ٹاپ آرڈر کو اس سال کے اوائل میں شروع ہونے والے ورلڈ کپ سے پہلے آرام دینے کا فیصلہ کیا تو عابد علی کو متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے لیے ٹیم میں شمولیت کا نادر موقع ملا اور عابد نے اس موقع کو اولین ون ڈے میں سینچری سکور کرے یادگار بنا ڈالا۔
وہ ورلڈ کپ سے پہلے انگلینڈ کے دورے میں ٹیم کے ساتھ رہے تاہم انہیں ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ آسٹریلیا کے دورے کے دوران بھی عابد علی ٹیم میں شامل رہے تاہم ایک بار پھر وہ پلئینگ الیون میں شمولیت حاصل نہیں کر سکے۔
انٹرویو کے دوران عابد کا کہنا تھا کہ انہوں نے نظر اندار کیے جانے پر کبھی شکایت نہیں کی اور نہ بڑبڑائے۔ ’میں نے صبر کیا اور مجھے یقین تھا کہ ایک دن میرا وقت بھی آئے گا اور میں اپنے آپ کو ثابت کروں گا کیونکہ میں اس قابل ہوں۔
 میں کافی عرصے تک ٹیم کے ساتھ رہا اور اس دوران میں نے اپنی فٹنس کو قائم رکھا اور چھوٹے چھوٹے پلان سے اپنی ’سکلز سیٹ‘ پر کام کرتا رہا۔ مجھے پتہ تھا کہ کبھی نہ کبھی مجھے موقع ملے گا اور میں اس کے لیے تیار تھا۔

عابد علی ورلڈ کپ سے پہلے انگلینڈ کے دورے میں ٹیم کے ساتھ رہے تاہم انہیں ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

عابد کے مطابق بالا آخر انہیں وہ موقع ملا اور اولین میچ میں انہوں نے سینچری سکور کی۔ ’ڈیبیو میچ میں سینچری سے زیادہ مجھے کیا چاہیے۔ میں نے اس دن کے لیے بڑا انتظار کیا تھا۔‘
امام الحق کی بینچ پر موجودگی اور سمیع اسلم کی ٹیم میں شمولیت کی آمیدواری کے باوجود عابد کا کہنا ہے کہ وہ اس سے پریشان نہیں ہوئے۔ 
مجھے پتہ ہے کہ مقابلہ سخت ہے اور حالیہ دنوں میں یہ اور بھی سخت ہوا ہے۔ لیکن مجھے جو معلوم ہے وہ یہ کہ مجھے پرفارم کرتے رہنا ہے تاکہ میں ریلیونٹ (متعلق) رہوں۔
مجھے اپنے کھیل کو بہتر بنانا ہے اور ہر موقع پر مجھے اچھا کھیل پیش کرنا ہے۔
عابد کے مطابق انہوں نے مواقع نہ ملنے پر کبھی شکایت نہیں کی بلکہ وہ مطمئن رہتے ہیں کہ انہیں جو ملنا ہے وہ مل کے رہے گا۔ ’میں نے اپنے ٹائم کے لیے انتظار کیا جو کہ آخر کار مجھے ملا۔ اگر اس موقع پر میں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتا تو یہ میرے لیے بہت زیادہ مایوسی کی بات ہوتی لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میری سخت محنت کا پھل مجھے مل گیا۔‘
سری لناک کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ کے آخری روز بابر اعظم کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے عابد علی بہت مطمئن نظر آئے خالانکہ کپتان اظہر علی کے ساتھ بیٹنگ کے دوران ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقع پر وہ رن آوٹ ہوتے ہوتے بچا۔

 عابد کا کہنا ہے کہ ’میں ایک عام کھلاڑی ہوں اور میں ان عظیم کھلاڑیوں کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔‘ فوٹو: اے ایف پی

بابر اعظم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ورلڈ کلاس کھلاڑی ہیں۔ ’بابر نے مجھے میچ کے دوران اعتماد دیا تاکہ میں وکٹ پر کھڑا رہوں اور برے بال کا انتظار کروں۔ ’نائنٹیز‘ میں پہنچ کر میں تھوڑا نروس تھا لیکن انہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور مجھے سینچری مکمل کرنے میں مدد دی۔
اگرچہ ’لیجنڈ‘ عابد کا نک نیم پڑ گیا ہے لیکن وہ صحافیوں اور فینز کو مشورہ دیتے ہیں کہ ان کا موازنہ کرکٹ کے بڑے ناموں سے نہ کیا جائے۔
’میں ایک عام کھلاڑی ہوں اور میں ان عظیم کھلاڑیوں کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔‘
’میں عابد علی ہوں، برائے مہربانی مجھے صرف عابد علی کے طور پر دیکھا جائے۔ میں چاہوں گا کہ میں انکساری کے ساتھ اپنی بہتر پرفارمنس کے ذریعے ملک کی خدمت کرتا رہوں۔۔ـ

شیئر: