Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس وقار سیٹھ کون ہیں، ان کے خلاف ریفرنس قانونی ہوگا ؟

جسٹس وقار احمد سیٹھ پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کے سربراہ ہیں۔ فوٹو: پشاور ہائی کورٹ
سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد ساری توجہ جسٹس وقاراحمد سیٹھ کے تحریر کردہ پیرا 66 کی جانب مبذول ہو گئی ہے جس میں انہوں سابق فوجی سربراہ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں لٹکانے کی بات کی ہے۔
پرویز مشرف کو سزا دینے والی خصوصی عدالت میں کئی بار تبدیلیاں کی گئیں، اور آخر میں اس کی سربراہی جسٹس وقاراحمد سیٹھ کو دی گئی۔ دیکھتے ہیں کہ جسٹس وقار سیٹھ کون ہیں اور انہوں اپنے کیرئیر میں اور کون سے اہم فیصلے کیے۔
جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے اپنے تحریری  فیصلے میں سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت سناتے ہوئے پیرا 66 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سزا پر عملدآمد یقینی بنانے کا حکم دیتے ہوئے لکھا ’اگر پرویز مشرف کی لاش ملے تو گھسیٹ کر ڈی چوک اسلام آباد لائی جائے اور تین روز تک لٹکائی جائے۔‘
خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے لکھے گئے پیرا 66 پر نہ صرف حکومت بلکہ افواج پاکستان نے بھی اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے جسٹس وقار سیٹھ کی ذہنی کیفیت کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 

دوسری جانب خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کے لکھے گئے پیرا 66 سے دیگر دو ججز نے بھی اپنے فیصلے میں اختلاف کیا ہے۔ جسٹس شاہد فضل نے پیرا 66 سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ سابق آرمی چیف کو سنگین غداری میں صرف پھانسی دینا ہی کافی ہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کون ہیں؟

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 16 مارچ 1961 کو ڈی آئی خان کے ایک کاروباری خاندان میں آنکھ کھولی۔
ابتدائی تعلیم کینٹ پبلک سکول پشاور سے حاصل کی۔ انہوں نے بیچلرز آف سائنس اسلامیہ کالج پشاور سے 1981 جبکہ بیچلرز آف آرٹس کی ڈگری 1982 میں یونیورسٹی آف پشاور سے حاصل کی۔
جسٹس وقار سیٹھ نے 1985 میں خیبر لاء کالج پشاور سے ایل ایل بی، جبکہ 1986 میں پولیٹکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی۔
جسٹس وقار سیٹھ نے بطور وکیل اپنے کیرئیر کا آغاز 1985 میں ذیلی عدالتوں سے کیا۔ 1990 میں انہوں نے ہائی کورٹ کا لائسنس حاصل کیا، جبکہ 2008 میں سپریم کورٹ کے وکیل کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔

جسٹس وقار نے فوجی عدالت کے 50 سے زائد دہشت گردوں کو سزائے موت کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔ فوٹو: اے یف پی

جسٹس وقار سیٹھ نے 2 اگست 2011 کو پاکستان کی عدلیہ میں بطور ایڈیشنل جج کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ وہ پشاور ہائی کورٹ میں بحیثیت بینکنگ جج اور کمپنی جج فرائض سر انجام دیتے رہے۔
جسٹس وقار پشاور ہائی کورٹ کے جوڈیشری سروس ٹریبیونل کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے 28 جون 2018 کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کا حلف لیا۔

جسٹس وقار سیٹھ کے اہم فیصلے

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت کی بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ نے فوجی عدالت کے 50 سے زائد دہشت گردوں کو سزائے موت  کے فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا تھا، تاہم بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناعی جاری کر دیا تھا۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف میں بھی پاکستان نے بطور مثال پیش کیا تھا کہ پاکستان کی فوجی عدالتوں پر دیگر عدالتیں نظر ثانی فیصلہ دے سکتی ہیں۔

کیا کسی جج کے فیصلے کو بنیاد بنا کر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جاسکتا ہے؟

وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بارکونسل نے وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس سیٹھ وقارکے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی مخالفت کی ہے۔

حکومت نے جسٹس وقار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جانے کا فیصلی کیا ہے۔ فوٹو: پی آئی ڈی

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے اور پاکستان بار کونسل اس معاملے میں جسٹس وقار سیٹھ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔‘
سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس اس فیصلے کی بنیاد پر نہیں دائر ہوگا، بلکہ اس فیصلے میں اس تحریر کی بنیاد پر ہوگا جس سے جسٹس وقار سیٹھ کی اہلیت پر سوال اٹھا ہے۔ ’ بات یہ ہو رہی ہے کہ جو آدمی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مردے کو گھسیٹ کر ڈی چوک لائیں اور تین دن تک لٹکائے رکھیں، اس کو آئین اور قانون اور شریعت کا کس حد تک علم ہے۔‘
سینئر قانون دان بیرسٹر ایس ایم ظفر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’ججز سے توقع کی جاتی ہے کہ ان کے فیصلوں سے کسی تعصب کا اظہار نہیں ہوگا۔ اور کوئی ایسی باتیں نہیں لکھی جائیں گی جو فیصلوں کے معیار کو گرا دیں۔‘
ایس ایم ظفر نے کہا کہ  پاکستان سے باہر اگر کوئی جج کسی فیصلے میں کچھ بھی بلاوجہ تحریر کرے تو اسے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ ’معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سپریم جوڈیشل کونسل سے یہ حتمی فیصلہ کروانا چاہتی ہے اگر کسی فیصلے میں ججز ایسا اظہار کر دیں جو غیر قانونی، غیر اسلامی اور غیر انسانی ہیں تو کیا اسے منصب پر رہنے کے قابل سمجھا جائے گا ۔‘
 

پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’عدالتی فیصلے کے الفاظ مذہب، انسانیت سے بالاتر ہیں۔‘ فوٹو: آئی ایس پی آر

سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس خصوصی عدالت کے فیصلہ پر اثر انداز ہوگا؟

سینیئر قانون دان بیرسٹر ایس ایم ظفر کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلے پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کے فیصلے پر پوری طرح اثرانداز نہیں ہوگا۔ سپریم جوڈیشل کونسل صرف ججز کے مواخذے کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔
سابق وزیرقانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے میں خصوصی عدالت کے فیصلے سے متعلق اپنی آبزرویشن دے گی تو ہی اس فیصلے پر اثر پڑسکتا ہے۔

ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر سوالات

سابق وزیر قانون خالد رانجھا کہتے ہیں کہ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر سوالات تو اٹھیں گے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ قانون کی کم علمی تعیناتی سے پہلے کی تھی یا بعد میں ہوئی۔’ ججز کی تعیناتی کے وقت تو کوئی ٹیسٹ نہیں لیا جاتا لیکن اس فیصلے میں لکھی گئی ایک تحریر سے یہ بات سامنے آئی کہ جج صاحب اہل علم نہیں ہیں۔ ججز سیلکٹ کرتے وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ان میں انصاف کرنے کا شعور موجود ہے یا نہیں۔‘
ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے اگر کسی کی خواہش کوئی اور ہے وہ تو پوری نہیں ہوسکتی جب تک آئین میں موجود طریقہ کار میں تبدیلی نہ کی جائے۔
 اہلیت کے حوالے سے سیاسی، سول بیروکریسی اور ملٹری بیروکریسی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ ’جو آمر خواتین، بچوں اور شہریوں کو زندہ جلانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں، کیا ان کی اہلیت پر سوال نہیں اٹھتے؟‘

شیئر: