Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کرکٹ کے ’لٹل ماسٹر‘ کی کہانی

انڈیا کے ممتاز تاریخ دان رام چندر گوہا نے کرکٹ کے بارے میں ’اے کارنر آف اے فارن فیلڈ‘ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے، اس کا اختتام انھوں نے جس واقعہ پر کیا اس میں حنیف محمد کا ذکر ہے۔
انھوں نے مشہور سوشلسٹ رہنما ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے بارے میں بتایا ہے کہ انھیں کرکٹ سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ وہ اسے نو آبادیاتی دور کی یادگار گردانتے۔
1960 میں پاکستان کرکٹ ٹیم انڈیا کے دورے پر گئی تو بمبئی ٹیسٹ کے دوسرے روز جہاں ایک طرف ہزاروں تماشائی سٹیڈیم میں میچ دیکھ رہے تھے، دوسری طرف رام منوہر لوہیا پریس کانفرنس کررہے تھے جس میں وہ نہرو کے ساتھ ساتھ کرکٹ پر بھی خوب برسے۔

حنیف کے آﺅٹ ہونے کی فکر اس  شخص کو بھی ہے جسے کرکٹ پسند نہیں۔ فوٹو اے ایف پی

 ان کا خیال تھا کہ نہرو کی چھٹی ہوجائے توپھر سب خوشی خوشی کبڈی کھیلنا شروع کردیں گے۔ پریس کانفرنس کے بعد صحافی تتر بتر ہوگئے تو وہ ہوٹل سے باہر آئے۔ قریب میں پان کی دکان پر پہنچے ، پان لیا اور پھر اسے چباتے ہوئے، دکاندار سے پوچھا:
’ حنیف آﺅٹ ہوگیا کیا؟‘  اس سوال کا جواب انھیں نفی میں ملا۔ حنیف محمد  160رنز بناکر رن آﺅٹ ہوئے۔
حنیف کے آﺅٹ ہونے کی فکر اس  شخص کو بھی ہے جسے کرکٹ پسند نہیں لیکن یہ ضرور جانتا ہے کہ اس وکٹ کی کس قدر اہمیت ہے۔

 بال ٹھاکرے اور حنیف محمد

 انتہا پسند ہندو رہنما بال ٹھاکرے اس زمانے میں کارٹونسٹ تھے، انھوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کے کارٹونوں پر مبنی ایک کتابچہ شائع کیا۔

 

حنیف محمد کے کارٹون کے نیچے  جو مختصر عبارت تھی اس میں بال ٹھاکرے نے انھیں ایسا لٹل ماسٹر قرار دیا جو ہندوستان کے لیے سنگِ گراں ثابت ہوگا۔ ٹھاکرے نے ان کے ضبط وتحمل کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ حنیف محمد کسی گھاگ کھلاڑی کی طرح میدان میں اترتے ہیں اور صورت حال اپنے قبضے میں کرلیتے ہیں۔

 لتا جب خیریت دریافت کرنے آئیں!

بمبئی ٹیسٹ سے پہلے حنیف محمد کے پاﺅں زخمی تھے، حالت اس قدر خراب تھی کہ ناخن اتارنے پڑے لیکن اس کے باوجو وہ ٹیم کی خاطر کھیلے۔ میچ کے دوران وقفے میں کرکٹ کلب آف انڈیا میں اپنے کمرے میں ٹیپ ریکارڈ پر نور جہاں کے گانے سن رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی تو انھوں نے اسے اندر آنے کو کہا۔ اب جو دیکھتے ہیں تو کمرے میں سفید ساڑھی میں ملبوس خاتون داخل ہوتی ہے اور کہتی ہے: نمستے، میرا نام لتا ہے۔
عظیم گلوکارہ یہ جان کر کہ حنیف محمد کی طبیعت ناساز ہے، ان کی خیریت دریافت کرنے آئی تھیں۔ ایسا سریلا تیمار دار قسمت والوں کو ملتا ہے۔
کمرے میں نور جہاں کی آواز گونج رہی تھی، لتا نے بتایا کہ وہ اس مغنیہ کو گرو مانتی ہیں۔ حنیف محمد نے بتایا کہ وہ ان کے(لتا) بہت بڑے فین ہیں۔ لتا کے علم میں جب یہ بات آئی کہ ان کی والدہ اور ماموں بمبئی میں ہیں تو انھیں ریکارڈنگ سٹوڈیو میں آنے کی دعوت دی، اگلے دن وہ لوگ وہاں گئے تو انھیں خوش دلی سے ریسیو کیا اور بڑی عزت دی۔

مزاحمت کی عظیم مثال

 حنیف محمد کریئر کے شروع میں ہی ٹیم کے اہم ترین بیٹسمین بن گئے لیکن انھیں صحیح معنوں میں پہچان اور شہرت 1958 میں برج ٹاﺅن ٹیسٹ سے ملی، جس میں انھوں نے 337رنز بنائے، 970 منٹ کریز پر رہ کر ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی طویل ترین اننگز کھیلی۔
ویسٹ انڈیز نے پہلی اننگز میں 579رنز بنائے، جس کے جواب میں پاکستان ٹیم 106رنز بنا پائی تو اسے فالو آن کا سامنا کرنا پڑا۔ 473 رنز اس نے اتارنے تھے، ساڑھے تین دن سے زائد کا کھیل باقی تھا۔ پاکستانی ٹیم کی شکست یقینی دکھائی دے رہی تھی۔ میچ کے چھٹے روزحنیف محمد نے اپنی ٹرپل سنچری مکمل کی اور یہ اعزاز حاصل کرنے والے برصغیر کے پہلے بیٹسمین بن گئے۔ آﺅٹ ہوئے تو شکست کے منڈلاتے بادل چھٹ چکے تھے۔

 ٹیچر کو گگلی

ماسٹر عبدالعزیز نے بچپن میں حنیف محمد کو کھیلتے دیکھ کر ان کا نادر ٹیلنٹ پہچانا۔ وہ سندھ مدرسة الاسلام کے کوچ تھے، انھی کی کہنے پر حنیف محمد اس سکول میں داخل ہوئے۔ ایک دن انھوں نے شاگردِعزیز سے کہا کہ آخری پیریڈ میں ٹیچر کو گگلی کروا کر آجایا کرو۔ گگلی سے کیا مراد ہے؟ یہ بات حنیف محمد کے پلے نہ پڑی تو بتایا گیا کہ کہنے کا مطلب یہ کہ ٹیچر سے نظر بچا کر کلاس سے نکل آیا کرو۔

حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی۔ 

ماسٹر عزیز، میچوں میں امپائرنگ کرتے تو شاگردوں کے حق میں ڈنڈی مارتے اور اکثر ان کا آﺅٹ پی جاتے۔
چھوٹے سے کمرے میں ان کی رہائش تھی۔ تنخواہ  کی رقم شاگردوں کی ضروریات پر صرف ہوجاتی۔ کسی کو گلوز دلاتے تو کسی کو پیڈز۔ حنیف محمد کے بقول بے لوث اور مست آدمی تھے۔

محمد برادران....ایک منفرد خانوادہ

کرکٹ میں محمد برادران منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ حنیف محمد، وزیر محمد، مشتاق محمد اور صادق محمد نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی۔ پاکستان ٹیم کے پہلے 101 ٹیسٹ میچوں میں سے 100 میں، چاروں بھائیوں میں سے کوئی ایک ضرور شامل رہا۔ نمائندگی کی یہ صورت 89 میچوں میں مسلسل رہی۔ حنیف محمد اور مشتاق محمد قومی ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ حنیف محمد کے بھائیوں میں صرف رئیس محمد ٹیسٹ کرکٹر نہ بن سکے جس کا انھیں قلق تھا۔
حنیف محمد کے بیٹے شعیب محمد نے والد کی روایت کو آگے بڑھایا ۔ پاکستان کی طرف سے 45 ٹیسٹ اور 63 ون ڈے میچ کھیلے۔ ان کے بیٹے شہزر محمد بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے ہیں۔

 باب وولمر....ایک منفرد تماشائی

 1959 میںحنیف محمد نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 499 رنز بنائے۔ 1994 میں یہ ریکارڈ برائن لارا نے 501 رنزبناکراپنے نام کرلیا۔ حنیف محمد اور لارا کی اننگزکے درمیان 35 برس کا وقفہ ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ دنیا میں ایک ایسا تماشائی ضروررہا ہے، جواس وقت بھی  سٹیڈیم میں موجود تھا، جب حنیف محمد کراچی میں تاریخ رقم کررہے تھے اوراس وقت بھی جب لارا نے ایجبسٹن میں پانچ سوکا ہندسہ عبورکیا۔
 یہ منفرد تماشائی باب وولمرتھے۔ حنیف محمد کوانھوں نے عام تماشائی کے طورپرکھیلتے دیکھا جبکہ لارا کی بیٹنگ واروکشائر کاﺅنٹی کے کوچ کی حیثیت میں ملاحظہ کی۔ ایجبسٹن میں وولمرکی موجودگی کی وجہ توصاف ظاہرہے۔ ذہن میں سوال یہ اٹھتاہے کہ حنیف محمد نے جب ریکارڈ قائم کیا،اس وقت وہ کراچی میں کیا کررہے تھے۔
 بات یہ ہے کہ وولمرکے والد عراق میں ملازمت کرتے تھے، 1958 کے اواخرمیں ادھرسیاسی صورت حال میں اتھل پتھل ہوئی تو وہ کراچی آگئے۔ایک روزدفتر جاتے ہوئے وولمر کے باپ نے گیارہ سالہ بیٹے کومیچ دیکھنے سٹیڈیم میں چھوڑ دیا، بس یہی وہ دن ٹھہراجب حنیف محمد نے تاریخ سازکارنامہ انجام دیا ۔

 حنیف محمد کی پسندیدہ اننگز

 

حنیف محمد نے 1967 میں کپتان کی حیثیت سے لارڈز میں 187رنز بنائے اور آﺅٹ نہیں ہوئے۔ ان کی نظر میں یہ ان کی سب سے اچھی اننگز تھی۔ ایک اخبارنے لکھا کہ صرف پولیس ہی حنیف محمد کوہٹاسکتی ہے، ساتھ میں کارٹون دکھایا گیا جس میں دوپولیس والے انھیں گراﺅنڈ سے باہر لے جارہے تھے۔

پاکستان کے پہلے عظیم بیٹسمین

  پاکستان کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سٹیٹس ملنے کے بعد حنیف محمد نے جس طرح ٹیم کی بیٹنگ کا بوجھ اٹھایا اس کی مثال ڈھونڈے سے ہی ملے گی۔ ان کے مقابلے میں نامور کرکٹر رائٹر سٹیورٹ وارک نے جارج ہیڈلی کا نام پیش کیا ہے لیکن ساتھ میں یہ وضاحت کی کہ ہیڈلی ویسٹ انڈیز کو ٹیسٹ سٹیٹس ملنے کے دو برس بعد ٹیم کا حصہ بنے جبکہ حنیف محمد پاکستان کے اولین ٹیسٹ سے ٹیم کے حصہ تھے۔
 1952 میں دورہ  بھارت کے دوران کمنٹیٹر وزیا نگرم نے ان کولٹل ماسٹرکہا جو ان کے نام کا ایک طرح سے جزو بن گیا۔
 حنیف محمد کی عظمت میں اس بات کو بھی دخل ہے کہ وہ گھر کے شیر نہیں تھے، ان کی بہترین اننگز ملک سے باہر ہیں، بیٹنگ اوسط ان کا اندرون سے زیادہ بیرون ملک ہے۔ 337کی تاریخی اننگز ویسٹ انڈیز میں کھیلی۔ لارڈز میں187 رنز بنائے۔سنہ1965میں ان کی کپتانی میں پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں واحد ٹیسٹ کھیلا تو پہلی اننگز میں 104اور دوسری اننگز میں93رنز بنائے ۔
 کپتان بنے تو ذمہ داری کا احساس اور بڑھ گیا بطور کپتان گیارہ ٹیسٹ میچوں میں ان کا بیٹنگ اوسط 58رنزفی اننگزکا ہے جو مجموعی اوسط  سے 14رنز زیادہ ہے۔
21 دسمبر 1934کو ہندوستانی ریاست جونا گڑھ میں آنکھ کھولنے والے حنیف محمد نے 55 ٹیسٹ کھیلے۔ بارہ سنچریوں اور پندرہ نصف سنچریوں کی مدد سے 3915 رنز بنائے۔ وہ بلاشبہ پاکستان کے پہلے عظیم بیٹسمین تھے۔

 ریٹائرمنٹ کے لیے کاردار کا دباﺅ

 سنہ 1968 میں انھیں وزڈن کرکٹ آف دی ائیرقراردیا گیا۔ اس اعزاز کے ایک سال بعد انھیں ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے پر مجبور کر کیا گیا۔ عبدالحفیظ کاردارجو کپتان کی حیثیت سے ان کے قدردان تھے۔ انھیں مسٹر Concentrationکہتے اور میچ میں نازک صورت حال ہوتی تو مشورے کے لیے ان سے کہتے” ہاں ! ماسٹر اب کیا کریں۔“
لیکن چیف سلیکٹر کی حیثیت سے وہ دوسرے روپ میں سامنے آئے، ان پر ریٹائرمنٹ کے لیے دباﺅ ڈالااور کہا کہ انھیں دو چھوٹے بھائیوں کا خیال کرنا چاہیے۔ حنیف محمد کے بقول ’یہ ایک طرح سے دھمکی تھی کہ اگر میں نے ریٹائرمنٹ نہ لی تو مشتاق محمد اور صادق محمد کا کریئر متاثر ہوسکتا ہے۔ کاردار کے رویے سے مجھے بہت دکھ ہوا۔ مجھے قومی ٹیم میں لانے والے بھی وہی تھے، نکال بھی وہی رہے تھے۔
 سنہ 1969 میں نیوزی لینڈ کے خلاف حنیف محمد نے آخری ٹیسٹ کھیلا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان کے سب سے چھوٹے بھائی صادق محمد کا یہ پہلا ٹیسٹ تھا۔ مشتاق محمد بھی یہ ٹیسٹ کھیل رہے تھے۔ تینوں بھائیوں کے ایک ساتھ ٹیسٹ میں شریک ہونے کا یہ پہلا اور آخری موقع تھا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد کرکٹ سے مختلف صورتوں میں ان کی وابستگی رہی۔ کوچنگ کی، سلیکٹررہے۔ ریڈیواور ٹی وی پر ماہرانہ رائے دی ۔کئی سال ” کرکٹر“ رسالے کے چیف ایڈیٹرکی حیثیت سے کام کیا ۔ ’ پلیئنگ فار پاکستان ‘کے نام سے آپ بیتی لکھی۔
 دنیا کے خطرناک باﺅلروں کا مقابلہ کرنے والے یہ عظیم بیٹسمین ،کینسر جیسے خطرناک مرض کا کئی برس مقابلہ کرنے کے بعد 11اگست 2016کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

شیئر: